'را' کے وہ ایجنٹ جنہیں پاکستان میں ہیرو سمجھ لیا گیا

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2017
اغوا کار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیلے جا رہے ایک ایسے بڑے گیم کا شکار بنے جسے وہ پوری طرح سمجھے بھی نہیں تھے۔ — خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو
اغوا کار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیلے جا رہے ایک ایسے بڑے گیم کا شکار بنے جسے وہ پوری طرح سمجھے بھی نہیں تھے۔ — خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو

3 مارچ، 2016 کو ایک ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادو کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ایران سے صوبہ بلوچستان میں مبینہ طور پر داخل ہوتے وقت گرفتار کیا تھا۔ 30 مارچ 2016 کو، پاک فوج کے شعبہءِ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں کلبھوشن یادو نے تسلیم کیا کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں اشتعال انگیزی اور دہشتگردی پھیلانے میں شاملِ کار رہا ہے۔

اقراری ویڈیو کے مطابق وہ ہندوستانی نیوی کے افسر ہیں اور پھر انہوں نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام شروع کیا۔

رواں سال 10 اپریل کو، پاکستان آرمی کی کورٹ مارشل نے یادو کو جاسوسی اور دہشتگردی پھیلانے کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ اگرچہ اس کیس کو خاصی میڈیا کوریج حاصل ہوئی، لیکن درحقیقت گزشتہ 46 برسوں کے دوران یادو 14 واں ہندوستانی جاسوس ہے جسے پاکستان کی جانب سے گرفتاری کے بعد سزا سنائی گئی ہے۔

ایسے کئی کیسز اب تو کافی مشہور ہیں، مگر سب سے زیادہ متجسس کیس ان دو بھارتیوں کا تھا، جنہیں پاکستان کے چند حلقوں میں (اگرچہ تھوڑے ہی عرصے کے لیے ہی سہی) باقاعدہ ہیروز مانا جانے لگا تھا.

جنوری 1971 میں کشمیر کے دو نوجوانوں نے سری نگر سے انڈین ایئرلائنز کا ایک جہاز اغوا کر لیا اور پائلٹ کو جہاز لاہور ایئرپورٹ پر اتارنے کا حکم دیا۔ اغواکار ہاشم قریشی اور اس کا رشتہ دار، اشرف قریشی تھے۔ دونوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے۔

جہاز کو لاہور میں لینڈ کرنے دیا گیا۔ جیسے ہی اس واقعے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو پاکستان کے ایک بڑے حلقے کی جانب سے ان دونوں کو ہیروز مانا جانے لگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کے حزب اختلاف کے اہم رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی پرواز نے بھی اسی دن لاہور میں لینڈ کیا تھا جس دن مغوی جہاز اس ایئر پورٹ پر اترا تھا.

سینئر صحافی اور کالم نگار، مرحوم خالد حسن نے اپریل 2003 میں (دی فرائیڈے ٹائمز میں) لکھا کہ لاہور ایئرپورٹ کے مرکزی دروازے پر جوشیلے ہجوم نے بھٹو کا استقبال کیا اور ان کے حامیوں نے انہیں اغوا کاروں سے ملاقات کرنے اور ان کے عمل کی ستائش کرنے پر زور دیا۔

حسن (جو اس وقت بھٹو کے ساتھ سفر کر رہے تھے) یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے چند حامی انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر مغوی جہاز کی جانب لے گئے۔ بھٹو نے اغواکاروں سے ہاتھ ملایا، چند خوشگوار باتیں کیں، مگر پھر وہاں سے فوراً چلے گئے۔

اس وقت پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت قائم تھی۔ ملک کا مشرقی حصہ، مشرقی پاکستان، خانہ جنگی کے دہانے پر تھا۔ حسن نے لکھا کہ بھٹو کو اس اغواکاری کے حوالے سے حکومتی مؤقف کا پتہ نہیں تھا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ، انہیں 'ان کے چند انتہائی پرجوش حامیوں نے اغواہ کاروں سے ملاقات کرنے پر مجبور کیا۔'

مذاکارات کے بعد پاکستانی حکام نے اغواکاروں کو مسافروں کی رہائی کے لیے قائل کر لیا، جنہیں دہلی جانے والی پرواز میں سوار کروا دیا گیا۔ اس کے بعد مغوی جہاز کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ اخبارات کے مطابق اغواکاروں نے خالی جہاز میں ڈائنامائٹ نصب کیے تھے۔ اپنے ایک دوسرے مضمون میں حسن ایک سابق پاکستانی انٹیلیجینس افسر، آفتاب احمد کا بیان نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ہی جہاز کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کام اغواکاروں کے ہاتھوں کروایا گیا جنہیں مٹی کا تیل فراہم کیا گیا تھا۔

پر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ حسن نے یہ سوال نہیں پوچھا۔ حسن نے ہمیں صرف یہ بتایا کہ جہاں جہاز اغوا ہونے کے بعد سے ہی پاکستان کے چند حلقوں میں ان دو قریشیوں کو حریت پسند سمجھا جا رہا تھا، وہاں یحییٰ حکومت نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کیے رکھی تھی۔ دونوں اغواکاروں کو حراست میں لیا گیا اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستان میں موجود ایک اہم رہنما سے ملاقات کروائی گئی۔

اے ایچ طالب نے 2014 میں ’گریٹر کشمیر’ نامی ویب میگزین میں اس اغواکاری کا تفصیلی قصہ لکھا۔ طالب نے لکھا کہ ان دو اغواکاروں کو نہ صرف جیل میں ڈالا گیا بلکہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ حکومت اغواکاروں کے مقاصد کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھی۔

دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے آغاز اور پھر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی جہاز اغوا کی خبریں اخبارات سے غائب ہو گئیں، لیکن پھر بھی ہندوستان میں اس واقعے کو برملا انداز میں ’کشمیر میں پاکستان کی براہ راست مداخلت کے ثبوت’ کے طور پر بیان کیا جاتا رہا۔

طالب لکھتے ہیں کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اور اشرف قریشی نامی اغوا کار کو بھٹو کی آنے والی حکومت نے رہا کر دیا، جبکہ دوسرے اغوا کار ہاشم قریشی کو 9 سال بعد 1980 میں جنرل ضیا کی آمرانہ حکومت کے دوران رہا کیا گیا۔ ہاشم ہالینڈ چلے گئے لیکن اشرف یہیں پر رکے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کے بعد وہ ایک استاد بن گئے۔ 2012 میں وہ مظفر آباد میں وفات پا گئے.

14 فروری 2001 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ہاشم قریشی (جو 2001 میں ہالینڈ سے ہندوستان لوٹ آئے تھے) نے بتایا کہ ان کے (1973 میں) مقدمے کے دوران حکومت پاکستان نے اشرف اور اس پر را کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اسی انٹرویو میں ہاشم نے الزام عائد کیا کہ اشرف اور انہیں پاکستانی ایجنسیوں نے جہاز اغوا کرنے کے کام میں پھنسایا تھا۔

تاہم، ہاشم اگر ہندوستان نہیں لوٹتے تو ان کا مؤقف شاید کچھ اور ہی ہوتا۔ جہاز اغوا کاری کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، ہاشم کے اس دعوے کے 13 سال بعد را کے ایک سابق سینئر جاسوس، آر کے یادو نے 2014 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب، مشن را میں لکھا کہ: "را نے ہاشم قریشی کو اپنے لیے کام کرنے پر راغب کیا۔ منصوبے کو آخری شکل دینے کے بعد ہاشم کو ایک دوسرے جاسوس اشرف قریشی کے ساتھ انڈین ایئر لائنز کی ایک پرواز کو اغوا کر کے لاہور لے جانے دیا گیا۔ را نے ہی ہاشم کو جہاز کے اندر ایک گرینیڈ اور ایک کھلونا پستول لے جانے میں مدد کی۔ لاہور ایئرپورٹ پر موجود پاکستانی حکام کو جب یہ بتایا گیا کہ جہاز کو کشمیری حریت پسندوں نے اغوا کیا ہے تو انہوں نے جہاز کو لاہور میں اترنے دیا۔ آل انڈیا ریڈیو نے جلد ہی اس اغوا کاری کی خبر نشر کردی اور پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جہاز کے اغوا میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے نے ہندوستان کو بڑے آرام سے پاکستان کی پروازوں کو منسوخ کرنے کا موقع فراہم کر دیا، جس نے یحییٰ خان کے مشرقی پاکستان میں بذریعہ ہوائی جہاز فوجی بھیجنے کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈال دی۔"

ان دو آدمیوں پر یحییٰ کا شک درست تھا۔ خالد حسن نے اپنے مضمون کو اس نکتے پر اختتام پذیر کیا ہے کہ اغوا کار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیلے جا رہے ایک بڑے گیم کا شکار بنے۔ ایک گیم جسے یہ نوجوان اغوا کار پوری طرح سمجھے بھی نہیں تھے۔ اسی لیے تو اشرف کو پاکستان میں رہنے دیا گیا اور ہاشم ہندوستان لوٹ آئے۔

یہ مضمون 16 اپریل 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Malik Apr 17, 2017 06:44pm
bahut umdaa aur maloomati iqtebaas hai.
irfan Apr 18, 2017 12:47am
کیا بات ہے ۔۔ ہر حکومتی بندے پر شبہ ہو رہا ہےاب تو۔
ahmak adami Apr 18, 2017 11:06pm
Thank you Mr Paracha you have helped me to understand the crime against Pakistan. This means our administration was very simple and stupid and played in the hands of enemy. I salute you Mr Paracha.