مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام پر تشدد کا نشانہ بننے والے طالب علم عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرادیا جس میں انھوں نے مشعال خان اور اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'میں مسلمان ہوں اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں'۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے چھٹے سمسٹر کے طالب علم عبداللہ نے عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ '13اپریل کو ان کے ایک دوست عباس نے 11 بجے فون کرکے ڈیپارٹمنٹ آنے کو کہا تھا، جہاں مدثربشیر سمیت کئی طلبا جمع تھے'۔

الزامات کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'طلبا نے میرے اوپر گستاخی کاالزام لگایا جس کی میں نے تردید کی جبکہ ان کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی کیا لیکن انھوں نےمجھے زدوکوب کیا اور زبردستی مشعال خان پر گستاخی کا الزام لگانے کامطالبہ کیا'۔

انھوں نے کہا، 'میں نے واضح طور پر بتادیا کہ مشعال نے کوئی گستاخی نہیں کی اورنہ ہی گستاخی کرسکتا ہے جس پر وہ مشتعل ہوگئے'۔

مقتول مشعال خان کے حوالے سے عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ مشعال کو پہلے سسمٹر سے جانتے تھے تاہم ان کی دوستی دو ماہ قبل ہوئی جس کی وجہ ان کی قابلیت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مردان یونیورسٹی میں گستاخی کے شواہد نہیں ملے، آئی جی کے پی

عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان کے علاوہ عبداللہ اور زبیر پر بھی گستاخی کا الزام عائد کیا گیا تھا جن کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ نے انکوائری کا نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 13 اپریل کو گستاخی کے الزام میں مشعال خان کو قتل کرنے سے قبل عبداللہ کا تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا تاہم انھیں بچالیا گیا جبکہ طلبا کے ایک گروہ نے مشعال کو قتل کردیا تھا۔

دوسری جانب انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بھی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ مشعال، عبداللہ اور زبیر کے خلاف لگائے گئے الزامات کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔

آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے تفتیش کے دائرہ کار کو وسیع رکھا ہے اور تمام پہلوؤں کا خیال رکھا جارہا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد وسیم Apr 17, 2017 11:58pm
مشعال کو انصاف ملے گا انشاءاللہ