سینیٹرز کا توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ
اسلام آباد: سینیٹرز نے 'توہین رسالت کے قانون' میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے کسی فرد پر گستاخی کا مرتکب ہونے کا الزام لگانے والوں کو سزا دینے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف مہم چلانے کا مطالبہ کردیا۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹرز نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
قانون کے غلط استعمال پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ مذہبی رہنماؤں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر کوئی فرد کسی دوسرے فرد پر جھوٹا الزام لگائے گا تو اسے بھی توہین رسالت کے قانون کے تحت سزا برداشت کرنا ہوگی۔
انھوں نے دہرایا کہ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے باعث توہین رسالت کی سزا کو قید سے بڑھا کر سزائے موت کیا گیا تھا، انھوں نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ اس وقت قانون اور انصاف کمیٹی کے چیئرمین سینیٹ کے موجودہ رہنما راجا ظفر الحق تھے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی نے بل کی منظوری سے قبل کچھ تجاویز پیش کی تھیں اور مطالبہ کیا تھا کہ اس حوالے سے پیش رفت کیلئے رپورٹ تشکیل دی جائے۔
سینیٹر کا کہنا تھا کہ 'مشعال خان کا قتل ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے روکنے کیلئے مضبوط اقدامات کیے جائیں'۔
اس موقع پر سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے ان سے سوال کیا کہ ہجوم اور سڑکوں پر انصاف کے اس سلسلے کو کیسے ختم کیا جائے جس پر سینیٹر بابر کا کہنا تھا کہ مؤثر قانون سازی کے ذریعے ایسی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ریٹائر جنرل عبدالقیوم نے بھی توہین رسالت کے قانون میں موجود نقائص کو دور کرنے کا مطالبہ کیا، انھوں نے زور دیا کہ اسلام امن اور برداشت کا مذہب ہے اور زیادتی سے روکتا ہے چاہے وہ جانوروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
مشعال کے قتل پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ دہشت گردی نہیں ہے، بربریت ہے'۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی ایک مہذب معاشرے کا حصہ ہے اور اگر کوئی جرم کا ارتکاب بھی کرے تو کسی فرد یا تنظیم کو حق نہیں کہ وہ کسی کو جاہلانہ طریقے سے سزا دے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں برداشت کی کمی ہے'۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ کوئی مہذب شہری اس قسم کے خوفناک اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا اور مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں روایتی تحقیقات سے بڑھ کر کچھ ہونا چاہیے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ قتل کے تمام محرکات عوام کے سامنے جلد از جلد پیش کیے جانے چاہیے۔
بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی سطح پر واضح ہے جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے واقعے کی مزمت کی ہے۔
تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ عدم برداشت کے معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور انکشاف کیا کہ نئے نصاب پر کام جاری ہے۔
بعد ازاں ایوان نے پاکستان پینل کوڈ کی کچھ شقوں میں ترمیم کیلئے دو بلوں کی منظوری دی۔
رضا ربانی کا احتجاج
اس سے قبل ایوان میں موجود تمام اراکین نے اپنے ڈیسک بجا کر چیئرمین رضا ربانی کو سینیٹ میں خوش آمدید کہا۔
خیال رہے کہ سینیٹ کے حوالے سے حکومت کے غیر سنجیدہ رویے پر چیئرمین رضا ربانی نے گذشتہ ہفتے جمعہ کے روز ایوان بالا کی کارروائی روکتے ہوئے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ متعدد واقعات کی روشنی میں لیا گیا تھا اور یہ ایک طریقہ کار بن گیا تھا کہ وزیر سوالوں کے جواب نہیں دیتے اور کبھی تو کسی کو جواب دینے کیلئے ایوان میں بھی موجود نہیں ہوتے، اس کے باوجود کہ حکومت کو اس بات کی نشاندہی کی جاتی رہی تاہم معاملات درست نہ ہوسکے۔
جمعہ کے روز بھی 11 سوالات کے جواب نہیں دیئے گئے اور 4 وزراء غیر حاضر تھے، انھوں نے ایوان کو بتایا تھا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد سیاسی ڈارمہ کرنا نہیں تاہم یہ صرف اور صرف ایوان کی اور اس کے اراکین کی عزت کیلئے ہے۔










لائیو ٹی وی