Dawnnews Television Logo
پارک کا منظر جو موجودہ اور گزشتہ حالت کو واضح  کر رہا ہے—فوٹو:وائٹ اسٹار

کراچی کے سرسبز پارک لالچ اور کاروبار کی نذر

سندھ حکومت نےگذشتہ ماہ باغ ابن قاسم کو 'بہتری کی غرض' سے بحریہ ٹاؤن کے'حوالے' کیا،عدالتی حکم پر معاملہ رکا۔
اپ ڈیٹ 18 اپريل 2017 04:11pm

کراچی کے سب سے بڑے عوامی پارک باغ ابن قاسم پر جمعہ (14 اپریل) کو سورج کی کرنوں کی مانند چمکتے بحریہ ٹاؤن کے سنہرے نشان سے مزین 15 افراد کی گنجائش کا حامل سیاہ ہیلی کاپٹر اترا، گردوغبار کا ایک بڑا جھونکا پارک کے ویران حصے کی طرف غائب ہوگیا اور اندر سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) ملک ریاض نمودار ہوئے، جو کسی زمانے میں ملٹری انجینئرنگ سروسز کے ٹھیکیدار ہوا کرتے تھے، ان کے ساتھ ان کا بیٹا، داماد اور بحریہ ٹاؤن کے چند ملازمین بھی تھے۔

ملک ریاض سے ملاقات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور میئر کراچی وسیم اختر بھی موجود تھے، جہاں اس عوامی پارک کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کے خلاف دائر پٹیشن کے معاملے پر ایک ملاقات ہونی تھی۔

130 ایکٹر پر محیط باغ ابن قاسم آج اپنی پرانی عظمت کا ایک عکس ہے، روزانہ 60 سے 100 عوامی بسیں، جو پورے کراچی سے ہزاروں لوگوں کو کلفٹن میں اس پارک کے دروازے تک پہنچاتی ہیں، غائب تھیں جبکہ پارک کے احاطے میں اُگی ہوئی گھاس بھی کب کی سوکھ چکی تھی۔

4 برس قبل بھی جب باغ ابن قاسم، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے زیر انتظام تھا تو یہاں خوب صورت گھاس موجود تھی، پھولوں کی کیاریاں تھیں اور پتھروں کی بنی ہوئی نشستیں لگی ہوئی تھیں، اس پارک کے اچھے دن اُس وقت تبدیل ہوئے جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے 2013 میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ذریعے مقامی حکومت کے کئی اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کے ایم سی کے فنڈز کے ذرائع کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا۔

کے ایم سی کے سابق عہدیدار کا کہنا تھا، 'سندھ حکومت نے ایسے حالات پیدا کیے جہاں پارٹی قیادت اور ان کے قریبی کاروباری ساتھی شہر کے مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے بڑی تعداد میں پیسہ بنا سکیں'۔

مزید پڑھیں: کراچی کا باغ ابنِ قاسم بحریہ ٹاؤن کے حوالے

انھوں نے بتایا، 'مثال کے طور پر 2016 سے قبل باغ ابن قاسم کے انتظام کا ٹھیکہ لیاری سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کی کمپنی کے پاس تھا تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا بنا ہوگا'۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے رواں برس 30 مارچ کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے باغ ابن قاسم کو 'بہتری کی غرض' سے بحریہ ٹاؤن کے 'حوالے' کردیا تھا۔

معاہدے کے مطابق 'بحریہ ٹاؤن نے تزئین وآرائش، خوب صورتی اور تعمیراتی کام کی بہتری کے لیے اپنے خرچے پر 10 سال کے لیے پارک کا انتظام سنبھالا'۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے رواں ماہ 3 اپریل کو میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے اس نوٹیفکیشن کو معطل کردیا اور عدالت نے دنوں فریقین کو ہدایات دیں کہ وہ اسی دن اپنے جوابات داخل کرادیں۔

پارک کا انتظام ایک سال بعد مزید خراب ہوا—فوٹو/وائٹ اسٹار
پارک کا انتظام ایک سال بعد مزید خراب ہوا—فوٹو/وائٹ اسٹار

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے اس پر تنقید کی اور صوبائی اسمبلی میں اس کی مزاحمت کرتے ہوئے ثبوت دکھائے کہ جنوری 2016 سے اس پارک کو جو دراصل ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت کے کنٹرول میں تھا، ملی بھگت سے طاقتور ڈیولپر کو دے دیا گیا۔

میئر کراچی وسیم اختر نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ جب سندھ حکومت کے ذریعے بحریہ ٹاؤن اور سندھ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری محمد رمضان اعوان مذکورہ معاہدے پر دستخط کررہے تھے تو کے ایم سی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، تاہم کے ایم سی کے شعبہ باغبانی اور پارک کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ستار کے خاص نمائندے کے طور پر مشہور آفاق مرزا کے دستخط کاغذات پر گواہ کے طور پر موجود ہیں۔

ایک سال قبل 16 مارچ 2016 کو باغ ابن قاسم کا ٹھیکہ، بحریہ ٹاؤن کو ایک کروڑ 73 لاکھ اور 25 ہزار روپے میں ایک سال کے لیے دیا گیا تھا، اس معاہدے پر دستخط ڈی جی پارکس کے ایم سی اسداللہ شاہ نے کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: باغ ابن قاسم کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

اسداللہ شاہ کے دستخط شدہ خطوط بھی ایک دن بعد جاری ہوئے تھے جس میں کام کرنے کے احکامات درج تھے، ان میں کہا گیا تھا کہ 'کام کو ڈپارٹمنٹ کے خاص طریقہ کار کے مطابق انجام دیا جائے اور ایک سال کے مقررہ وقت پر مکمل کیا جائے جبکہ ناکامی کی صورت میں روزانہ ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا'۔

گوگل ارتھ کی سیٹلائٹ تصاویر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 16 مارچ 2017 کو ایک سال کے اختتام پر بحریہ ٹاؤن نے پارک کا کیسا 'انتظام' کیا، تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ باغ ابن قاسم، ڈیولپر کے ہاتھوں میں جانے کے بعد مزید بدترین حالت میں ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن، اس پارک سے متصل اپنے آئیکون ٹاور کے لیے ایک ہزار میٹر کی سیوریج پائپ لائن بھی باغ ابن قاسم سے گزار رہا ہے۔

سابق ڈی جی پارکس نے کہا کہ صوبائی اختیارات سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس معاملے پر سوالات اٹھائے نہیں جاسکتے۔

باغ ابن قاسم میں تعمیراتی کاموں اور اشیاء کو ٹوٹا اور بکھرا ہوا دیکھا جاسکتا ہے—فوٹو/ وائٹ اسٹار
باغ ابن قاسم میں تعمیراتی کاموں اور اشیاء کو ٹوٹا اور بکھرا ہوا دیکھا جاسکتا ہے—فوٹو/ وائٹ اسٹار

ان کا کہنا تھا کہ 'جب اسسٹنٹ ڈائریکٹر پارکس مجید میمن کو پارک میں کھدائی سے آگاہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے ذمہ داران تک یہ بات پہنچائی لیکن ان کی بری طرح سرزنش کی گئی اور فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا'۔

گوکہ انھیں سابق وزیر اور پی پی پی کے سرکردہ شرجیل میمن کے بھانجے ہونے کی بناء پر بحال کردیا گیا لیکن ساتھ ہی انھیں یہ غلطی دوبارہ نہ دہرانے کی بھی ہدایت کی گئی۔

باغ ابن قاسم کی سیٹلائٹ تصاویر میں پارک میں تعمیراتی کاموں بشمول بڑے مین ہولز کے خول اور 12 انچ قطر کے پائپ اب بھی اِدھر اُدھر بکھرے دیکھے جاسکتے ہیں، دوسری جانب سیاہ رنگ کی پولیتھیلین لائنز جو کے ایم سی سے ضائع ہونے والے پانی کو باغ ابن قاسم کے سبزے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، بھی کھدائی کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

اس کے باوجود پارک کو ایسی کمپنی کے 'حوالے' کیوں کیا جارہا ہے جو معاہدے کے مطابق اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتری؟ کیا وہ ادارہ جو ایک کروڑ 73 لاکھ اور 25 ہزار روپے کے ایک سال کے معاہدے پر پورا نہیں اترسکا، وہ 10 سال میں مفت میں یہ ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے؟

گزشتہ معاہدے پر دستخط کرنے والے سابق ڈی جی پارکس اسداللہ شاہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے مضحکہ خیز ہنسی کے ساتھ جواب دیا 'میں سرکاری ملازم ہوں اور اس معاملے پر کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ پالیسی کامعاملہ ہے اور آپ بہترین جج ہیں'۔

ذوالفقار علی بھٹو کی میراث

کے ڈی اے اسکیم 5 میں واقع باغ ابن قاسم، پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے حوالے سے وسیع نظریے کی میراث ہے، بھٹو نے اس شہر کو یہاں کے باسیوں کے لیے باغات اور سرسبز مقامات سے مرصع تصور کیا تھا۔

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر لینڈ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کے معروف ٹاؤن پلانر علی احمد کے ابتدائی ڈرافٹ کو مسترد کردیا تھا کیونکہ ان کے مشاہدے کے مطابق یہ ڈرافٹ شہر کے لیے درکار پارکس کے حساب سے ٹھیک نہیں تھا۔

موجودہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے والد اور 1996 میں سندھ کے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ نے کے ڈی اے اسکیم 5 کے تمام پارکس اور میدانوں کو کے ایم سی کے حوالے کیا کیونکہ بےنظیر بھٹو کی حکومت میں ان مقامات کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے کے ایم سی کے وسائل زیادہ تھے۔

مزید پڑھیں: باغ ابن قاسم کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا نوٹیفکیشن معطل

تاہم گذشتہ چار سال کے دوران آہستہ آہستہ پارک تباہ حالی کا شکار ہوتا گیا۔

ایک علاقہ مکین فرح حسن کہتی ہیں، ’میرا بیٹا یہاں ہر روز فٹبال کھیلا کرتا تھا لیکن یہ فیملی پارک اب صرف مشکوک افراد کی تفریح کی جگہ بن چکا ہے اور اب میں اپنے بیٹے کو یہاں نہیں جانے دیتی‘۔

باغ ابن قاسم کی پرانی سرسبز تصویر (بائیں) اور موجود تصویر (دائیں) جہاں سبزے کا نام و نشان بھی موجود نہیں—۔فوٹو/وائٹ اسٹار
باغ ابن قاسم کی پرانی سرسبز تصویر (بائیں) اور موجود تصویر (دائیں) جہاں سبزے کا نام و نشان بھی موجود نہیں—۔فوٹو/وائٹ اسٹار

کے ایم سی کے سابق سینئر حکام کے مطابق باغ ابن قاسم کی بحریہ ٹاؤن کو ’حوالگی‘ کے پیچھے بہت سے پیچیدہ معاملات ہیں۔

پہلے پہل نہ ہی سندھ حکومت اور نہ ہی کے ایم سی نے پارک کی ملکیت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کیا، جب کوئی لینڈ اتھارٹی ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز کرتی ہے تو اپنے اخراجات پلاٹس کو فروخت کرکے حاصل کرتی ہے۔ اس پارک کی صورت میں ان اخراجات کو اس رقم میں شامل کیا جاسکتا ہے جو کے ایم سی سندھ بورڈ آف ریونیو کو زمین اور انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ (سڑکوں، پانی کی فراہمی، نکاسی آب، پارکوں، میدانوں، اسکول اور مساجد کی تعمیر وغیرہ) کے اخراجات کی مد میں ادا کرتی ہے۔

یوں یہ پارک کے ڈی اے اسکیم 5 کے رہائشیوں سے منسلک ہے جبکہ کے ایم سی اس کی دیکھ بھال اور مزید ترقیاتی کام کی ذمہ دار ہے جبکہ کے ایم سی کونسل کے 309 اراکین اہل علاقہ سے اجازت حاصل کیے بغیر باغ کی ملکیت کی تبدیلی کے حق میں ووٹ نہیں کرسکتے۔

دوسری جانب 30 مارچ کو صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ باغ ابن قاسم کو لوکل گورنمنٹ کا محکمہ کے ایم سی سے حاصل کرچکا ہے۔

1986 کے کاروبار کے قوانین کے تحت، جن میں 2002 میں ترمیم ہوئی تھی، سندھ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ، مقامی محکموں اور کونسلز سے تعاون کرے گا اور نگرانی کا کام سرانجام دے گا اور کسی بھی قانون کے تحت یہ محمکہ اپنی مرضی سے ترقیاتی کاموں پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

علاوہ ازیں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی دفعہ 74 کے تحت، ایک جانب جہاں کونسل کی جانب سے کسی ادارے کے کنٹرول اور دیکھ بھال کی اجازت حکومت کو حاصل ہے، وہیں باغ ابن قاسم کے معاملے میں صرف کے ایم سی کو یہ معاملات دیکھنے اور انہیں کسی دوسرے کونسل کے حوالے کرنے کا اختیار حاصل ہے، تاہم وہ بھی اسے کسی نجی فریق کے حوالے نہیں کرسکتی۔

حکمراں جماعت پی پی پی نہ صرف اپنی قانونی بلکہ شہر کے لوگوں کی جانب اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی اہمیت نہیں دے رہی اور نہ ہی لوکل گورنمنٹ حالیہ احتجاج میں سامنے آئی ہے جبکہ دونوں ہی شہر کے اہم ترین پارک کی کمرشلائزیشن کے معاملے پر شراکت دار ہیں۔

اس معاملے کو 21 نومبر 2016 کو سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن سے معاونت حاصل ہورہی ہے جو 2013 کے ایکٹ کی دفعہ 74 کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے اور لوکل گورنمنٹ کو کے ایم سی سے کسی بھی عوامی پارک کا قبضہ حاصل کرکے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی بھی کمپنی یا ملٹی نیشنل ادارے کو دینے کا اختیار دیتا ہے جس میں باغ ابن قاسم سمیت شہر کے 5 باغ شامل ہیں۔

دیگر پانچ باغات میں بےنظیر بھٹو پارک، فریئر گارڈن، بیچ پارک اور جہانگیر پارک شامل ہیں اور یہ تمام باغات بھی کمرشل مقاصد کے لیے 'حوالے' کیے جانے کے عمل کا حصہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: باغ ابن قاسم کی حوالگی:بحریہ ٹاؤن کا کمرشل فائدہ نہیں،ملک ریاض

23 دسمبر 2016 کو حکومت سندھ نے سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے بےنظیر بھٹو پارک کے قبضے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صوبے کے بااثر عناصر نے فریئر گارڈنز کو سالانہ فوڈ فیسٹیول منعقد کرنے والے آرگنائزر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ بیچ پارک اور جہانگیر پارک کو بھی اسی انداز میں کمرشل مفادات کے لیے ٹھیکے پر دے دیا جائے گا۔

سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے چند مقدمات میں سامنے آنے والے فیصلوں کے ذریعے عوامی پارکس کی کمرشلائزیشن کو روکتے ہوئے اسے قانون اور شہریوں کی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

شہریوں کے ورثے اور ان کے آئینی حقوق کا نقصان

ان عدالتی فیصلوں کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاندار باغ ابن قاسم کو آہستہ آہستہ بحریہ آئیکون ٹاور نگل جائے گا، جس کا علم صوبائی حکومت اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو بھی ہے۔

ایک سینئر ریٹائرڈ لینڈ افسر کا کہنا ہے، 'کے ایم سی کے قوانین کے مطابق پارک کی بحالی کے معاہدے کے لیے بحریہ کی بولی ایک کروڑ 73 لاکھ اور 25 ہزار روپے تھی، جس کے ساتھ 5 فیصد کا پے آرڈر بھی منسلک تھا، جو تقریباً 8 لاکھ 50 ہزار روپے بنتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی نہ تو بحریہ ٹاؤن نے پارک کی بحالی کی کوشش کی اور نہ ہی کے ایم سی نے ڈیولیپر سے بولی کے معاہدے کی کیش وصولی کی'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'اس حوالے سے وہ اقدامات بھی نہیں اٹھائے گئے، جن کا کیا جانا ضروری تھا، کے ایم سی نے معاہدے کو منسوخ کیا اور نہ ہی کمپنی کو بلیک لسٹ کیا اور نہ ہی نئے ٹینڈرز کو مدعو کیا گیا بلکہ پارک کا انتظام دوبارہ اُسی پارٹی کو دے دیا گیا'۔

باغ ابن قاسم میں تعمیر کیے گئے مین ہولز—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار
باغ ابن قاسم میں تعمیر کیے گئے مین ہولز—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار

سپریم کورٹ میں زیر التواء 2014 کے مقدمہ نمبر 2064 اور دیگر مقدمات میں موقف اختیار کیا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے غیر قانونی طور پر 4،050 اسکوائر یارڈ زمین پر قبضہ کیا جسے کے ایم سی نے رام کرشنا مشن ٹرسٹ کو نچلی ذات کے ہندو بچوں کے لیے ایک اسکول قائم کرنے کی غرض سے عارضی طور پر 1944 میں لیز پر دیا تھا۔

جب مذکورہ اسکول کے مینیجنگ ٹرسٹی پرشوتم داس نے 1947 میں ہندوستان ہجرت کی، تو اس اسکول پر علی اکبر اعوان نام کے ایک شخص نے غیر قانونی طور پر قبضہ کرلیا، جس نے 35 برس تک اس پلاٹ کو ریگولرائز کرنے کی کوشش کی، تاہم کے ایم سی عہدیداران اس کی کوششوں میں رکاوٹ بنے۔

ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق 1997 تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا اور پھر آخرکار ایک خریدار محمد یوسف بلوچ (جو اب سینیٹر ہیں)، فاروق ستار (اُس وقت کے سینئر صوبائی وزیر تھے) کی حمایت سے اسے کے ایم سی سے ریگولرائز کروانے میں کامیاب ہوگئے۔

مذکورہ پٹیشن کے مطابق پارک کی زمین کے اور بھی بہت سے حصے، جنھیں حسین ڈی سلوا فلیٹس کا حصہ ہونا تھا، غیرقانونی طور پر 9،360 اسکوائر یارڈز میں ضم کردیئے گئے اور اب یہ 17،517 اسکوائر یارڈ پر مشتمل بحریہ کمپلیکس کا حصہ ہیں۔

باغ ابن قاسم کے شمال میں ہزاروں اسکوائر یارڈز پر مشتمل زمین بھی سروس آئیکون ٹاور کے انڈرپاس کی تعمیر کے لیے استعمال ہوگئی، تعمیر کے دوران کوٹھاری پریڈ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جسے سماجی کارکن جہانگیر ہرمس جی کوٹھاری نے 1919 میں کراچی کے شہریوں کو دے دیا تھا۔

کے ایم سی کے ایک سابق عہدیدار نے کہا، 'کمرشل مقاصد اسی طرح اُس وقت تک کراچی کے شہریوں کے ورثے اور ان کے آئینی حقوق کو نقصان پہنچاتے رہیں گے، جب تک وہ خود کھڑے ہو کر اس کے خلاف مزاحمت نہ کریں'۔

ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا، 'کراچی کے باسیوں کو اپنے سرسبز مقامات دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے گا جنھیں لالچی اشرافیہ طبقے نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیا ہے؟