کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے باغ ابن قاسم کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔

یاد رہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے سندھ حکومت کی جانب سے کلفٹن میں واقع باغ ابن قاسم کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کے لیے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو آج سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

وسیم اختر کا موقف تھا کہ باغ ابن قاسم کی نجی ادارے کوحوالگی سے متعلق حکومتی نوٹیفکیشن قانون کی خلاف ورزی ہے۔

میئر کراچی کی جانب سے دائر درخواست میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری بلدیات، نجی ادارے اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے باغ ابن قاسم کی نجی ادارے کو حوالگی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے فریقین کاموقف سننے کے بعد باغ ابن قاسم کی حوالگی کا نوٹیفکیشن معطل کرکے صوبائی حکومت سے 18 اپریل تک جواب طلب کرلیا۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وسیم اختر کا کہنا کہ 'باغ ابن قاسم کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی ملکیت ہے، یہ ابھی تک کسی اور کے ہاتھ میں نہیں گیا اور کے ایم سی کے پاس ہی ہے'۔

میئرکراچی کا کہنا تھا کہ انھوں نے باغ ابن قاسم کو بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کے معاہدے کو نہیں بلکہ نوٹی فیکیشن کو چیلنج کیا ہے جس کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔

وسیم اختر نے کہا کہ 'یہ پارک کے ایم سی اور عوام کی ملکیت ہے لیکن کے ایم سی کو اعتماد میں لیے بغیر معاہدہ کیا گیا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا حالانکہ کونسل سے منظوری نہیں لی گئی اور نہ ہی اشتہار شائع کیا گیا جس کے بغیر اس طرح کے معاہدے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی نوٹیفکیشن جاری کیے جاسکتے ہیں'۔

خیال رہے کہ حکومت سندھ نے گزشتہ ہفتے کراچی کے باغ ابن قاسم کو بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے حوالے کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے سندھ اسمبلی میں شدید احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں:کراچی کا باغ ابنِ قاسم بحریہ ٹاؤن کے حوالے

وسیم اختر نے کہا کہ 'ہم ملک ریاض کا احترام کرتے ہیں لیکن کراچی میں بہت سی جگہیں ہیں جہاں پارک بنائے جاسکتے ہیں، سہراب گوٹھ ٹریفک، پارکنگ اور تجاوزات کی وجہ سے برا نظر آرہا ہے، وہاں پر پارک بنایا جاسکتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب یہ پارک سندھ حکومت کو دیا گیا تھا تو اس کی حالت بہترین تھی لیکن کسی جاننے والے کو 4 کروڑ روپے میں سال کا ٹھیکہ دیا گیا جو 50 لاکھ روپے مہینہ بنتے ہیں، یہ ٹھیکہ کسی پیپلز پارٹی والے کو دیا گیا تھا لیکن انھوں نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پارک کو اس حالت تک لانا ایک منصوبے کا حصہ تھا تاکہ کوئی مسیحا سامنے آئے'۔

میئر کراچی نے مزید کہا کہ 'گزشتہ 8 برس سے یہ پارک صوبائی حکومت کے پاس تھا اور اس کے لیے فنڈز بھی جاری ہورہے تھے مگر اس پارک پر کام نہیں کیا گیا جبکہ اس پارک سمیت جتنے بھی ادارے ہمیں ملے ہیں ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ انھیں ٹھیک کرنے کے لیے کے ایم سی کے پاس فنڈز نہیں ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:باغ ابن قاسم کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

میئرکراچی کا کہنا تھا کہ 'انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹکٹس آف پاکستان، باغ کی ڈیزائننگ اور ماسٹر پلان تیار کرنا چاہتا ہے اور انھوں نے ہم سے کہا ہے کہ باغ کو ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس کو بہتر کرسکیں اور ہم اس کی بہتری کے لیے پوری کوشش کریں گے'۔

انھوں نے کہا کہ کراچی میں جتنے قبضے اور چائنا کٹنگ ہونی تھی، وہ ہوچکی، اب مزید نہیں ہونے دیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل نے بھی بحریہ ٹاؤن کی حوالگی کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عوام کے فنڈز کو بچانے کے لیے کیا گیا لیکن یہ فائدہ مند ہونے کے بجائے قیمتی اراضی پر قبضے کے لیے راہ ہموار کرے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

M. Bilal Apr 03, 2017 12:40pm
Ye jahil politicians loog khud to koi kaam karty nahi lakin agar koi doosra karnay lagy to uss main bhi taang urra dete hain!!!!!
sallu Apr 03, 2017 04:29pm
@M. Bilal bhai is tarah koe plot kisi ko day dayen without any permission? wo sahi hay?