• KHI: Maghrib 7:20pm Isha 8:45pm
  • LHR: Maghrib 7:03pm Isha 8:36pm
  • ISB: Maghrib 7:13pm Isha 8:49pm
  • KHI: Maghrib 7:20pm Isha 8:45pm
  • LHR: Maghrib 7:03pm Isha 8:36pm
  • ISB: Maghrib 7:13pm Isha 8:49pm
شائع April 22, 2017 اپ ڈیٹ October 28, 2017

میرے لیے اسپین کے سفر کا ہہلا پڑاؤ ’الکانتے’ نامی ساحلی شہر ہے۔ ماہِ جنوری میں اسکینڈے نیویا میں بسنے والے کسی شخص سے زیادہ گرم دھوپ کی اہمیت آخر کون سمجھتا ہو گا، پچھلے ہفتے کوپن ہیگن کا درجہ حرارت منفی 6 سے 12 کے درمیان رہا، اس لیے درجہ حرارت 15 ہو جانا کسی نعمت سے کم کہاں ٹھہرا۔

جہاز سے دیکھنے پر اسپین کا یہ حصہ چھوٹی پہاڑیوں کا مسکن سا لگا، ان پہاڑیوں میں ہمارے شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں جیسی جاہ و حشمت تو نہیں لیکن ٹیکسلا اور چو آسیدن شاہ کے ٹیلے ضرور یاد دلاتے ہیں۔

میں اندر ہی اندر ڈینمارک کی سردی اپنے پیچھے چھوڑ آنے پر بہت خوش تھا، ایئر پورٹ سے سی 6 نامی بس پکڑی جو ائیرپورٹ سے شہر اور شہر سے ائیر پورٹ کا ایک مؤثر چارہ ہے۔ شہر جانے والے راستوں کے کناروں پر کھجوروں کے کئی درخت دیکھ کر ایک اپنایت کا احساس ہوتا ہے، لیکن صرف کھجوریں ہی کیا یہاں اکثر درختوں پودوں سے آشنائی کا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ نیلم، سٹرکولیا، کچنار، فین پام، بکائن اور بہت سے دیگر ہماری پاکستانی نظاروں کا بھی اہم حصہ ہیں۔

الکانتے شہر کا ایک ہوائی منظر— تصویر رمضان رفیق
الکانتے شہر کا ایک ہوائی منظر— تصویر رمضان رفیق

سانتا بابرا کے قلعے سے الکانتے شہر کا منظر— تصویر رمضان رفیق
سانتا بابرا کے قلعے سے الکانتے شہر کا منظر— تصویر رمضان رفیق

گوگل میاں نے اپنے جدید برقی نقشے میں ہوٹل کے راستے کی رہنمائی کی تھی، اس کے مطابق ہمیں بس سے اتر کر ٹرام پر سوال ہونا تھا، لیکن بس ڈرائیور کے مطابق ہمارا ہوٹل چند اسٹاپ کے بعد ہی آنا تھا، بس کے ڈرائیور نے کمال شفقت سے ہمیں متعلقہ اسٹاپ پر آگاہ کردیا، اس اسٹاپ کے بالکل سامنے ہی ٹرام کا اسٹیشن بھی تھا۔

کڑی سے کڑی ملتی دکھائی دی، پیشتر اس کے کہ کسی سے دریافت کرتے کہ فلاں نمبر ٹرام کا فلاں سٹاپ کس طرف جانے والی ٹرام پر آتا ہے کہ یکا یک ایک طرف اپنے ہوٹل کے نام پر نظر پڑی، میرے ہمسفر کا خیال تھا کہ یہ ایک اشتہار بھی ہو سکتا ہے، جبکہ میرا خیال تھا کہ یہ ہوٹل ہی ہو سکتا ہے یا اسی ہوٹل کی کوئی شاخ۔

خیر ہوٹل گئے تو معلوم ہوا کہ یہ تو ہمارا ہی ہوٹل ہے اور گوگل میاں نہ جانے کون سا پیچیدہ راستہ دکھانے پر تلے ہوئے تھے۔ اس سفر کے دوران کئی دفعہ احساس ہوا کہ گوگل کی بتائی ہوئی ٹائمنگ اور راستے اپ ڈیٹ نہیں تھے۔

قلعے کے اندر موجود ایک ٹاور — تصویر رمضان رفیق
قلعے کے اندر موجود ایک ٹاور — تصویر رمضان رفیق

قلعے کی دیوار — تصویر رمضان رفیق
قلعے کی دیوار — تصویر رمضان رفیق

اس ظالم کی وجہ سے ہی ہم نے پہلے دن کے کئی قیمتی گھنٹے کھانے کی تلاش میں گزار دیے، بہرحال اگلے دن ہماری پہلی منزل سانتا باربرا کا قلعہ تھا، جو ہمارے ہوٹل کے بالکل قریب تھا۔

نہیں جناب ایسا تو ہمارا خیال تھا دراصل قلعہ ساتھ ہی واقع ایک پہاڑی پر تھا اور آپ کو علم ہو گا کہ پہاڑوں کی چوٹیاں ہمیشہ سے قربت کا دھوکا دینے کا ہنر جانتی ہیں۔ یہ قلعہ مسلم اسپین کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جس زمانے میں محمد بن قاسم سندھ آیا تھا، اسی زمانے میں عرب یہاں موجود تھے۔

سانتا باربرا کے قلعے کی جانب جاتا راستہ— تصویر رمضان رفیق
سانتا باربرا کے قلعے کی جانب جاتا راستہ— تصویر رمضان رفیق

قلعے کا اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق
قلعے کا اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق

قلعے اندر موجود گھنے درخت — تصویر رمضان رفیق
قلعے اندر موجود گھنے درخت — تصویر رمضان رفیق

قلعے کے اندر موجود گیلری — تصویر رمضان رفیق
قلعے کے اندر موجود گیلری — تصویر رمضان رفیق

لیکن 13 ویں صدی کے بعد قلعہ واپس عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا، اس قلعے پر کئی جگہوں پر عبارتوں، تصاویر اور یادگاروں سے مسلم دور کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔ پورے قلعے کو ایک دن میں دیکھنا ممکن نہیں، کئی ایک گیلریاں ہیں جو اس قلعے کی تاریخ اور ماضی میں گزری کئی داستانوں کو سیمٹے ہوئے ہیں۔

یہاں ایک گیلری میں پرانے زمانے میں استعمال ہونے والے ’قبائلی بیج’ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، یہ ایسے نشانات ہیں جو افراد کے درمیان قبائلی فرق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ ایک گیلری میں مختلف ادوار کے فنون لطیفہ کی باقیات کو بھی اکٹھا کیا گیا تھا، باقی ثقافتوں کے ساتھ اسلامی ثقافت کے فن پارے دیکھ کر دل کو ایک انجانی سی خوشی ملی۔

عربی رسم الخط، جیومیٹری کی اشکال، پھولدار نقوش اور اسلامی تاریخ سے منسلک دیگر اشیا اس شاندار ماضی کی آئینہ دار تھیں جو ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ ایک اور گیلری میں مٹی اور دھات کے برتنوں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، اس نمائشی کمرے کی تزین و آرائش اور طرز پیشکش بہت دلفریب تھا جو اس جگہ کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔

گیلری میں مختلف تہذیبوں کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں — تصویر رمضان رفیق
گیلری میں مختلف تہذیبوں کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں — تصویر رمضان رفیق

گیلری میں اسپین میں اسلام کی موجودگی کے علامات کو محفوظ کیا گیا ہے — تصویر رمضان رفیق
گیلری میں اسپین میں اسلام کی موجودگی کے علامات کو محفوظ کیا گیا ہے — تصویر رمضان رفیق

قلعے کو پہاڑی کے نشیب و فراز کو خوبصورتی سے استعمال کرتے ہوئے اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ جیسے کئی منزلہ عمارت کا گمان ہونے لگتا ہے اور ہر منزل پر وافر تعداد میں پودے اور پھول قلعے کو مزید خوبصورتی بخشتے ہیں، اور قلعے کی ان مختلف منزلوں سے الکانتے کے ساحل کا نظارہ آنکھوں کی عیاشی تصور کیا جا سکتا ہے۔

اس دن گرم دھوپ، نیلا سمندر، نئے جہان کی سیر، تاریخ کا سفر اور جوانی میں آسودگی کی سب لذتیں مل کر ایک ایسا سرور طاری کیے ہوئیں تھیں جو میرے لفظوں کے بیان سے باہر ہے۔ اس قلعے میں تاریخ اور سفر سے بڑھ کر بھی کچھ ہے، اس نظارے اور خوبی اور خوبصورتی کے سوا بھی کچھ ہے، ایسا سحر جو اس مقناطیسی حلقے میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس قلعہ میں بنے ہوئے ایک کیفے سے کافی اور کیک سے خود اپنی دعوت کی، وہاں پڑی ایک کرسی پر آنکھیں بند کر کے کچھ گرم دھوپ کو جسم میں جذب کرنے کی کوشش کی اور مسلم تاریخ کے مٹے ہوئے اس شاہکار کو گلے سے لگا کر واپس چلا آیا۔ اترائی کا سفر اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ ہو سکتا تھا۔

گیلری میں موجود ایک قبائلی بیج — تصویر رمضان رفیق
گیلری میں موجود ایک قبائلی بیج — تصویر رمضان رفیق

قلعے میں موجود ایک گیلری— تصویر رمضان رفیق
قلعے میں موجود ایک گیلری— تصویر رمضان رفیق

وہاں سے میں نے الکانتے کے مرکزی شہر کا رخ کیا، فلک بوس عمارتیں یہاں بھی کچھ کم نہیں لیکن شہر کی بڑی سڑکوں پر بلیوارڈ طرز پر لگے ہوئے درخت اور ان کی ترتیب نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ سڑکوں پر مختلف درختوں کو بالترتیب لگایا گیا تھا، کچنار کے درختوں پر گلابی پھول وطن کی محبت کے تصور کو تصویر کر رہے تھے۔ بکائن، نیم اور برگد کی قطاریں بھی ان اونچی عمارتوں کے دامن میں اجنبی نظر نہیں آئیں۔

الکانتے کے شہری نخلستانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا، یعنی شہر کے بالکل مرکز میں انتہائی رش زدہ سڑکوں کے درمیان سو دو سو فٹ چوڑی گرین بیلٹ پر گھنے درخت کچھ اس انداز میں لگائے دیکھے کہ جنگل کا سا سماں گزرے، اور ان نخلستانوں میں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہیں بھی بنائی گئی ہوں۔

سوچیے مال روڈ لاہور کی درمیانی گرین بیلٹ کو تین گنا وسیع اور مزید درخت اور پودے لگا دیے جائیں اور ان جگہوں میں بیٹھ کر آپ شہر کے ماحول سے بالکل کٹ جائیں۔ یہ تصور مجھے بہت بھلا لگا، اور خدا مجھے موقع دے تو میں ایسا شہر بساؤں جس کی بڑی سڑکوں کے کناروں پر بھی ایسے ہی نخلستان ہوں۔

الکانتے میں جگہ جگہ نخلستان نما جگہیں مل جاتی ہیں —تصویر رمضان رفیق
الکانتے میں جگہ جگہ نخلستان نما جگہیں مل جاتی ہیں —تصویر رمضان رفیق

ٹائلس کے درمیان بڑی ہی ترتیب کے ساتھ درخت اگائے گئے ہیں — تصویر رمضان رفیق
ٹائلس کے درمیان بڑی ہی ترتیب کے ساتھ درخت اگائے گئے ہیں — تصویر رمضان رفیق

شہر میں جگہ جگہ سڑک کے دونوں جانب گھنے درخت لگے ہیں— تصویر رمضان رفیق
شہر میں جگہ جگہ سڑک کے دونوں جانب گھنے درخت لگے ہیں— تصویر رمضان رفیق

یہاں کچھ ایسے ہی نخلستان کی مانند، کجھوروں اور پام کے درختوں سے ڈھکی ایک مرکزی جگہ کا نام ایکسپلنڈا ہے، یہ الکانتے ساحل کی جانب رنگین ٹائلوں سے ڈیزائن کردہ خوبصورت فرش اور اس پر ترتیب سے لگے مذکورہ درختوں پر مشتمل علاقہ ہے۔

اس جگہ کے ساتھ کافی دکانیں بھی ہیں، کھانے پینے اور سستی اشیا کے اسٹالز وغیرہ لگائے گئے ہیں۔ اسی ایکسپلنڈا کے پاس ہی ایک جگہ ہم نے حلال شوارما ڈھونڈا جو ایک نیک دل پاکستانی نے بنا کر دیا، اس نے ہمیں یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ شوارما اتنا شاندار نہیں ہے کچھ ہی فاصلے پر ایک بنگلادیشی ریسٹورنٹ ہے وہ زیادہ اچھا ہے، اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے شام کا کھانا ہم نے اسی بنگلادیشی ریسٹورنٹ پر کھایا۔

شہر میں نخلستان نما ان جگہوں میں درختوں اور پودوں کو کچھ اس طرح اگایا گیا ہے کہ وہاں بیٹھ کر وقت گزارنے کی جگہ بھی مہیہ ہو جاتی ہے — تصویر رمضان رفیق
شہر میں نخلستان نما ان جگہوں میں درختوں اور پودوں کو کچھ اس طرح اگایا گیا ہے کہ وہاں بیٹھ کر وقت گزارنے کی جگہ بھی مہیہ ہو جاتی ہے — تصویر رمضان رفیق

سڑک کے ساتھ درختوں اور پودوں سے ڈھکی جگہیں فرحت کا احساس دلاتی ہیں — تصویر رمضان رفیق
سڑک کے ساتھ درختوں اور پودوں سے ڈھکی جگہیں فرحت کا احساس دلاتی ہیں — تصویر رمضان رفیق

شہر کی گلیوں کی سیر کرتے ہوئے ہمیں ایک رنگ برنگی گلی سے گزرنے کا اتفاق ہوا، ویسے تو شہر کے بہت سے گلی کوچوں سے لوگوں کی رنگوں اور پینٹنگ سے محبت کو محسوس کیا جا سکتا ہے کیونکہ میں نے کئی جگہ پر ایسی بڑی بڑی پینٹنگز دیکھیں جو پوری پوری دیوار کو گھیرے ہوئے تھیں، لیکن اس رنگ دار گلی کی بات کچھ اور ہی تھی۔

اس گلی کے دونوں طرف گھر اور دکانیں تھیں لیکن فرش پر گہرے رنگ کا پینٹ کیا گیا تھا، اور کئی جگہ پر پلاسٹک کے شوخ درخت اور پلاسٹک کے ہٹ بنائے گئے تھے جس سے نہ صرف بچے لطف اندوز ہو رہے تھے بلکہ گلی کسی تصویری کہانی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔

الکانتے کی ایک رنگ برنگی گلی سے گزر— تصویر رمضان رفیق
الکانتے کی ایک رنگ برنگی گلی سے گزر— تصویر رمضان رفیق

شہر کی ایک گلی کے فرش میں بچھی خوبصورت ٹائلس— تصویر رمضان رفیق
شہر کی ایک گلی کے فرش میں بچھی خوبصورت ٹائلس— تصویر رمضان رفیق

اسی شام ہمارے ایک فیس بک دوست کا پیغام آیا کہ یہاں اصل سیاحتی مقام الکانتے نہیں بلکہ دنیا بھر سے زیادہ تر لوگ بینی ڈورم دیکھنے آتے ہیں، سو آپ بینی ڈورم ضرور دیکھیں۔ الکانتے سے بینی ڈورم کے لیے ٹرام جاتی ہے اور ساحل کے ساتھ ساتھ 40 منٹ کا یہ سفر اسپین کی خوبصورتیوں کی ایک جھلک بھر محسوس ہوتی ہے۔

اگلے روز ہم بینی ڈورم کے لیے روانہ ہوئے اور واقعی میرے دوست نے سو فیصد ٹھیک ہی کہا تھا دیکھنے لائق اصل مقام تو یہ تھا۔

بینی ڈورم کا شہر اور اس کا ساحل حقیقتاً ایسی جگہ ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ اپنی چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ یہاں الکانتے شہر کے مقابلے سیاحوں کی بہتات تھی۔ یہاں موجود بازار اور سوونئیرز کی بے شمار دکانیں دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ یہ ایک روایتی سیاحتی شہر ہی ہے۔

بینی ڈورم اپنی رنگا رنگی راتوں کے سبب دنیا میں خاصی شہرت تکھتا ہے، کسی زمانے میں لوگ یہاں بنا حساب شراب پینے کے لیے آتے تھے اور یہ جگہ کسی حد تک بدنام بھی تھی، یہاں کے نوسرباز اپنے نئے ڈھنگوں سے سیاحوں کی جیبیں صاف کرنے میں اس قدر شہرت رکھتے تھے کہ بی بی سی جیسے ادارے کو بھی اس موضوع پر ایک ڈاکومنٹری بنانے کی مہمیز دی۔

بینی ڈورم شہر کی ایک مصروف سڑک— تصویر رمضان رفیق
بینی ڈورم شہر کی ایک مصروف سڑک— تصویر رمضان رفیق

بینی ڈورم شہر میں ایک کرتب باز کرتب دکھا رہا ہے — تصویر رمضان رفیق
بینی ڈورم شہر میں ایک کرتب باز کرتب دکھا رہا ہے — تصویر رمضان رفیق

لیکن آج کا بینی ڈورم قدرے مختلف ہے، جنوری کے مہینے میں باقی یورپ میں ایسا اچھا موسم ملنا تقریباً ناممکن ہے اس لیے استطاعت رکھنے والوں کی پہلی منزل بینی ڈورم کا ساحل ہے۔ مجھے یہاں اس موسم میں جوانوں سے زیادہ بڑی عمر کے لوگ نظر آئے۔

ہمارے رہنما دوست نے بتایا کہ موسم گرما میں اس ساحل پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، اور نیلے پانی کے ساتھ ریتلے ساحل پر لگی ہوئی والی بال کی نیٹ اور بلیو فلیگ (ساحل پر لگا ایک پرچم جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ساحل ہر طرح سے ماحولیاتی معیار پر پورا اترتا ہے) کے حامل ساحل کو دیکھ کر میں اندازہ کر سکتا تھا کہ یہاں موسم گرما کی دنیا کیسی دلکش ہوتی ہو گی۔

اسپین کے سفر میں پاکستانیوں کو ہر جگہ موجود پایا، بینی ڈورم میں تین چار کھانے پینے کی دکانوں پر پاکستانی نظر آئے، راہ چلتے ہوئے ایک سبزی اور پھلوں کے لیے مختص اسٹور کے مالک ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔

الکانتے شہر کی ایک شام — تصویر رمضان رفیق
الکانتے شہر کی ایک شام — تصویر رمضان رفیق

الکانتے شہر میں آخری شام — تصویر رمضان رفیق
الکانتے شہر میں آخری شام — تصویر رمضان رفیق

سب سے بڑھ کر کہ مجھے مشورہ دینے والے اور بینی ڈورم کے ٹرین اسٹیشن سے شہر تک لانے والے پاکستانی دوست بھی ایک گروسری اسٹور کے مالک تھے جس وجہ سے معلومات لینے اور جگہیں ڈھونڈنے میں کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ پردیس میں دیسی مل جانے کی محبت صرف باہر آ کر ہی چکھی کی جا سکتی ہے، ایسے میں ان پرخلوص دوستوں کی محبت سے سفر کی پریشانیاں قدرے کم ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔

الکانتے اور بینی ڈورم کو دیکھنے کے لیے تین دن بہت کم محسوس ہوئے، اب بھی لگ رہا ہے جیسے کوئی خواب دیکھا ہو، جیسے کسی ٹائم مشین سے گزر کر چند ساعتوں کے لیے ہی اسپین گیا ہوں، اور واپس چلا آیا ہوں، لیکن اسپین میں ایسا جادو ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے۔

اسی سرشاری میں ماہ فروری میں دس دن کے لیے اسپین کا پروگرام ترتیب دیا جو بعد میں عمرے کے سفر سے بدل دیا، لیکن دل میں ایک خواہش شدت سے موجزن ہے اسپین کو دیکھنے کی۔ شاید کسی آنے والے سفر میں مجھ پر یہ کھلے کہ اسپین مجھے بہت کیوں بھایا، شاید وہ درخت پودے جو میرے دیس کی گلیوں سے ملتے جلتے ہیں، شاید معتدل گرم موسم، شاید کہ مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی ایک بسری ہوئی یاد ہے، لیکن جو بھی ہے اسپین میرے دل میں ہے۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (16) بند ہیں

ali Apr 25, 2017 05:00pm
wah Ramzan bhai wah,, good hai,,
KHAN Apr 25, 2017 05:56pm
السلام علیکم: ایک جگہ دیکھ کر آپ نے لکھا ’’خدا مجھے موقع دے تو میں ایسا شہر بساؤں جس کی بڑی سڑکوں کے کناروں پر بھی ایسے ہی نخلستان ہوں’’ یہ چیز تو ہم اپنے رہنمائوں اور اعلیٰ سرکاری افسران سے چاہتے ہیں کہ وہ پوری دنیا دیکھ چکے ہیں، اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ چکے ہیں اگر وہاں کی ایک چیز کو بھی پاکستان میں رائج کرتے تو ہم بحیثیت قوم بہت سی اچھی چیزیں سیکھ چکے ہوتے۔ ہمارے لیڈر ہمیں قطار تک بنانا نہیں سیکھاتے، چاہیے سگنل توڑنا ہو یا پھر ائیرپورٹ کے وی آئی پی لائونج، ڈی ایچ اے کے چوراہوں پر سگنل توڑنے والے پراڈو میں ہی بیٹھے ہوتے ہیں، اس طرح ہم ان سے بد تہذیبی سیکھتے اور یہ ہمارے پیارے وطن کا چلن بن جاتا ہے۔اگر زرداری، نواز شریف، عمران خان بیرون ملک لائن میں کھڑا ہوسکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔ اسی طرح ملک میں ہر جگہ، اعلیٰ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، پارکوں، کھیل کے میدانوں، پارکنگ پلازوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ کیوں نہیں بنائے جاتے، صرف یہ ہاؤسنگ اسکیم، وہ ہاؤسنگ اسیکم، یہ پلازہ وہ پلازہ۔۔۔ آخر کیوں۔ خیرخواہ
ابوبکر شیخ Apr 25, 2017 06:09pm
تصویروں اور تحریر کے حوالہ سے انتہائی خوبصورت بلاگ۔۔۔ میں ان گلیوں، قلعہ اور بازاروں کو مستنصر حسین تارڑ صاحب کی تیز تحریر کے ذریعہ گھوم چکا ہوں، بلک بار بار گھوم چکا ہوں۔۔۔اور آج آپ کے ساتھ یہ گلیاں ایک بار پھر دیکھ لیں۔۔شکریہ۔۔انتہائی لاجواب۔۔
رمضان رفیق Apr 25, 2017 09:57pm
@KHAN ایسے خیالات پیٹ بھرنے سے آتے ہیں، ابھی کئی اہل سیاست کے پیٹ بھر گئے مگر نیت نہیں بھری، شاید کسی کو مرنے سے پہلے یاد آئے یا کسی آنے والی نسل کو سمجھ میں آ جائے کہ دولت جتنی بھی سمیٹ لی جائے خالی ہاتھوں سے واپس لوٹنا ہے۔ میں پاکستان سے مایوس نہیں ہوں، ہم نے خود پاکستان میں پھل دار پودے لگانے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، کسی وقت میں ہم ایک آدھ نخلستان بنانے کے قابل ہو ہی جائیں گے۔ میرے خیال میں ہمیں خود آگے آنا چاہیے ۔
رمضان رفیق Apr 25, 2017 09:58pm
@ابوبکر شیخ بہت شکریہ ، آپ جیسے سنئیر کے الفاظ میرے لئے بہت معنی رکھتے ہیں، حوصلہ افزائی کا شکریہ
رمضان رفیق Apr 25, 2017 09:58pm
@ali شکریہ علی بھائی
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن Apr 26, 2017 03:03am
محترم رمضان صاحب ، جس طرح آپ نے اندلس کے دو شہروں کی سیر کرائی اب ماننا پڑے گا کہ آپ سے بہتر گائیڈ شاید ہی کوئی اور ۔۔۔۔۔۔ بھائی یہ سلسلہ جاری رکھیں، آپ کی تحریر ، ماشاء اللہ کیا کہنے اور فوٹو گرافی، وہ تو سونے پر سہاگہ ہے ۔ بس ایک چھوٹی سی کسر باقی ہے کہ آپ کی تحاریر میں وہ خوبان مغرب، وہ حسینائیں اور دلربائیں غائب ہوتی ہیں جو مستنصر کا ہر جگہ انتظار کرتی ملتی ہیں؟ یہ گر آپ بھی سیکھ لیں تو ہمیں کسی اور کو اپنا گائیڈ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
Ahmed Zarar Apr 26, 2017 03:17am
Ramzan Rafiq sahab i was really waiting for this travel log .when you reach the Spain you won't resist to write about this Magical realism .The only place in Europe I want to see is Qartuba and Alhamra.This desire developed when grand father allowed to read novel of Nasim Hajazi from his secret collection. Yousaf bin tashfeen,Kalisa aur Aag,Aakhari Chata,Andheri Raat Ke Musafir.Visualised the mith after a comercial "Capstan in spain".then Movie "Gannata" then drama series " Shaheen" on PTV. I have Spanish at my office when i asked abut these places Their non serious attitude distorted my nostalgia.Now you triggered it again.I shall be waiting for its second part specially Alhamra and Qartuba.
رضوان محمود Apr 26, 2017 05:30am
اللہ کرے اور ھمت گویائ عطا۔۔۔۔ماشاءاللہ رمضان رفیق بھائی اندلس کے گلی کوچوں میں اسلامی تہذیب اور ان قلعوں میں عظمت رفتہ کے گم گشتہ نشانوں کا پتہ دے کر آپ نے دل مظطرب کو ان اجنبی مگر اپنے راستوں کی زیارت کی دعوت خوب اچھے انداز میں دی۔ ھم اپنے حصے کا دیا جلائیں گے تو روشنیاں چارسو پھیل ہی جائیں گی۔ ان شاءاللہ
رضوان محمود Apr 26, 2017 05:32am
تصاویر نے تحریر کو آٹھ چاند عطا کر دیے بہت خوب
Hanzala Malik Apr 26, 2017 08:02am
Bht khoob jnb
فرحت طاہر Apr 26, 2017 08:08am
بہت ہی معلوماتی، دلچسپ اور خوبصورت بلاگ ہے .
Kamran Khan Apr 26, 2017 02:11pm
Very nice Information..Keep it up please..........
رمضان رفیق Apr 26, 2017 02:44pm
@Ahmed Zarar , Thanks for feedback, qurtuba and many other places in spain are on my travel list, so stay connected .
MUSHTAQ ALI Apr 27, 2017 01:13pm
Very Good photography and expression.
Atif Apr 29, 2017 04:28pm
@Kamran Khan thanks Kamran bhai to give your value able comments