پولیس گردی اور وکلا گردی کی اصطلاحات تو ہم سنتے رہتے ہیں، لیکن وڈیرہ گردی ایک ایسی قدیم اصطلاح ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ اس کی ہی ایک مثال آج کل سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔

اس خطے میں جب انگریز نے پولیس کو اپنے اقتدار کو قوت بخشنے کے لیے استعمال کیا تب ایک صوبیدار ہی علاقے کے ایک وڈیرے اور چوہدری کے لیے کافی ہوتا تھا۔

یوں برٹش راج سے لیکر آزادی کے بعد پولیس کو ہر دور میں استعمال کیا گیا ہے۔ پولیس قوانین بھی اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد بھی پولیس کو اسی انداز میں استعمال کیا جاتا رہا۔

آج بھی پورے ملک میں متعلقہ علاقوں کے ایم این اے یا اس کی مساوی حیثیت رکھنے والی شخصیت کی مرضی سے ایس پی اور ایس ایچ اوز کی تقرری کی جاتی ہے۔ تا کہ ان کا اور ان کے حواریوں کا تھانے پر اثر قائم رہے۔

پاکستان میں آج بھی سیاست پٹواری اور پولیس کے گرد گھومتی ہے اور لوگ بھی انہی کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے ساتھ پٹواری اور پولیس ہوتی ہے جبکہ ہماری سیاست کا محور آج بھی وڈیرہ ہی ہے، صرف انداز تبدیل ہوئے ہیں مگر ذہنیت، کردار اور چالیں وہی فرسودہ ہیں۔

حال ہی میں سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں ایک وڈیرے نواب زید تالپور کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ جس میں نواب زید کنری تھانے میں ایس ایچ او کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور ایس ایچ اور انہیں منتیں کر رہا ہے کہ وہ مہربانی کر کے اس کی کرسی سے اٹھ جائیں۔

مگر نواب صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے تم زمین پر بیٹھو اس کے بعد میں تمہاری بات سنوں گا۔ کہا جا رہا ہے کہ نواب زید کے گلے پڑ جانے والی یہ ویڈیو بھی ان کے اپنے ایک دوست نے بنائی اور یہ سوچ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی کہ اپنے علاقے میں نواب کی دھاک بیٹھ جائے گی۔

لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ ویڈیو نواب کے گلے پڑجائے گی۔ اب ان پر مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔ اسی طرح جب ایک ادارے کی حیثیت میں یہ ویڈیو پولیس کی تضحیک کا سبب بنی تو پولیس نے بھی برقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کنری سے کراچی جا پہنچی اور نواب زید کے بیٹے کو اس کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ پولیس تحویل میں ’’سوری سوری ‘‘ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی گئی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ کل تک نواب زید کے خلاف جو عوامی غصے کا ابھار تھا اس میں کسی حد تک کمی آ گئی۔ اس طرح کے واقعات ہمارے سماج میں کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟

پولیس کے لیے عوامی سطح پر کبھی بھی اچھا تاثر نہیں ہوتا۔ لیکن وائرل ہونے والی ویڈیو کے بعد یہ بات ضرور سامنے آئی کہ لوگ پولیس افسر کی بے عزتی کرنے والے وڈیرے کے بجائے پولیس کے ساتھ کھڑے تھے۔

سبب صرف یہ تھا کہ اگر ایک وردی پوش افسر کی عزت کسی وڈیرے کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو عام آدمی کی عزت کس طرح محفوظ ہوگی۔

آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کس طرح پیش آیا۔

عمر کوٹ کے صحافیوں سے جب میں نے اس بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ نواب زید تالپور پیپلزپارٹی کے موجودہ رکن اسمبلی نواب یوسف تالپور کے بھتیجے ہیں۔ لیکن سیاسی طور پروہ حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ سندھ کے دو سابق وزرائے اعلیٰ لیاقت جتوئی اور ممتاز علی خان بھٹو سے بھی ان کی قریبی رشتہ داری ہے۔ وہ اپنے علاقے کے بڑے زمیندار بھی ہیں۔

واقعہ کچھ اس طرح رونما ہوا کہ دو اپریل کو نواب زید تالپور کنری تھانے پہنچے۔ وہ یہ شکایت لے کر تھانے گئے تھے کہ ان کے سیاسی حامیوں پر پانی چوری کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ نواب زید نے پولیس کو دھمکایا کہ ان کے سیاسی مخالفین کے کہنے پر پولیس ان کےحامیوں کے خلاف مقدمات درج کیوں کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بات تو تو میں میں سے بڑھتی شدید تلخ کلامی پر پہنچی۔

پولیس نے ہمت کر کے خود کو للکارنے پر نواب زید کو تحویل میں لے لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب علاقے کی اہم شخصیت کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس انتظامیہ کو ہدایت کی کہ فوری طور پر نواب زید کو آزاد کیا جائے، شہر کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب نواب زید کو پولیس نے لاک اپ سے نکالا تو وہ واپس جانے کے بجائے ایس ایچ او کی کرسی پر جاکر بیٹھ گئے۔

اس سارے واقعے کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ بغیر وردی ایس ایچ او تصور جٹ، نواب زید کو ہاتھ جوڑ کر منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن نواب ایس ایچ او کو کہتا ہے کہ پہلے زمین پر بیٹھو اس کے بعد تمہاری بات سنی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق نواب زید کے ساتھی نواب کو منتیں کر کے واپس لے گئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ شام کو 6 بجے جب یہ ویڈیو میڈیا پر آن ایئر ہوئی تو ایس ایچ کو اپنی عزت کا خیال آیا اور انہوں نے نواب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمہ درج ہونے کی اطلاع جب نواب زید کو ملی تو وہ عمر کوٹ پریس کلب پہنچے جہاں وہ یہ وضاحت کرنے آئے تھے کہ پولیس نے ان کو حراست میں رکھا تھا۔

اس وقت پولیس ان کو درج کیے ہوئے مقدمے کے تحت گرفتار کرنے آئی تو جو کلمات انہوں نے ادا کیے اس کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔ مقدمہ درج ہونے کے باوجود بھی وہ جس طرح دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اور پولیس جس طرح بے بس نظر آتی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے اور ان کے افسران کہاں کھڑے ہیں۔

وڈیرہ اور پولیس کا گٹھ جوڑ تو برسوں پرانا ہے، لیکن اس بار نواب اپنے مرتبے کے زعم میں یہ بات بھول بیٹھے کہ دخل میں مداخلت نہیں کی جاتی ہے۔

دخل کی ویسے تو انیک معنی ہیں لیکن ہماری روزمرہ کی زندگی میں کاروباری زبان میں جہاں دکاندار یا ہنر مند بیٹھ کر کام کرتا ہے اسے دخل کہا جاتا ہے۔ آپ اگر اپنے دفتر میں اپنے لیے ایک مخصوص کرسی پر روزانہ بیٹھتے ہیں تو وہ بھی آپ کا دخل کہلاتا ہے۔

لہٰذا یہ بات اخلاقیات میں بھی طے ہے کہ اگر کوئی آپ کے منصب سے بڑا ہے تو بھی اسے آپ کے دخل پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ہم اکثر اوقات دیکھتے ہیں کہ جب بالا افسر اپنے ماتحت کے آفس میں داخل ہوتا ہے تو اکثر اوقات ماتحت شخص کرسی کی پیشکش کرتا ہے۔

کچھ لوگ اس پیشکش کو قبول کرلیتے ہیں اور کچھ سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اداروں کی اخلاقیات بھی یہی ہے کہ آپ کسی پر اپنا اثرو رسوخ ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کی حرکت نہ کریں۔

اب جب سندھ میں آئی جی سندھ پولیس کو مکمل طور پر بے اثر کردیا گیا ہے۔ انہیں اعلیٰ سطح کی سرکاری اجلاسوں میں طلب بھی نہیں کیا جاتا۔ پولیس کے ادارے کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے نے خود پولیس کی حیثیت پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر سیاسی اثر و رسوخ استعمال ہوگا، راضی نامہ ہوجائے گا۔

لوگ ایک نئے واقعے کے رونما ہونے پر ایک بار پھر اسے بھول جائیں گے۔ ایک اور نواب ایک بار پھر کسی ایس ایچ او نہ صرف اس کے دفتر میں بلکہ بھرے بازار میں تذلیل کرے گا۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگی۔ لوگ مزے لے لے کر ہمارے نظام پر تبصرے کریں گے۔

اور ہم اپنے اداروں کی بے بسی کا اسی طرح رونا بیٹھ کر روتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

abbas kassar May 05, 2017 01:10pm
I think it is no crime to sit on chair or any other person or officer. The real cause behind this episode is joining of PTI by Zaid which has infuriated PPP otherwise same SHO often attends Otaq pf Wadera to get favours.
راجہ رضوان May 05, 2017 06:35pm
بہت اچھے طریقے سے آپ نے وڈیروں اور زمینداروں کی سیاسی نفسیات، سرکار کی بے بسی اور نظام کی لاچارگی کا نقشہ کھینچا ہے ،
عبد الغفار May 05, 2017 10:48pm
میرے خیال سے وڈیرا گردی بھی پولیس گردی کی مرہون منت ہے، اور سیاسی شخصیات کی اپنا بندہ کی سوچ نے بھی اداروں کی تباہی میں برابر کا کردار ادا کیا ہے