سندھ ہائی کورٹ نے تھر میں بچوں کی اموات کی وجوہات کی ایک رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صحت اور خوراک کے سیکریٹری کو 18 مئی تک مکمل رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹسن سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے تھرپارکر میں بچوں کی اموات کے حوالے سے دائر پٹیشن کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران صوبائی حکام نے ضلع میں میڈیکل افسران کی تعیناتی کی تفصیلات بھی پیش کی۔

چیف جسٹس نے عہدیداروں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر کی عدم موجودگی پر ناراضی کا اظہار کیا۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بیرسٹر غلام مصطفیٰ مہیسر نے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے رپورٹ بنچ کے سامنے پیش کی اور اگلی سماعت میں ڈپٹی کمشنر کی حاضری کا یقین دلایا۔

انھوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے تھرپارکر کے بچوں کی اموات کے معاملے کو اٹھانے کی بھی نشاہدہی کی۔

مزید پڑھیں:تھر میں بچوں کی ہلاکت، چیف جسٹس نے رپورٹ طلب کرلی

خیال رہے کہ یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کے 25 اپریل کے حکم کی روشنی میں تیار کی گئی تھی اور عدالت کی جانب سے تھر میں بچوں کی اموات، گندم کی غیرمنصفانہ تقسیم، پانی، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی عدم موجودگی پر ریاستی معاملات پرعدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک 80 بچے مناسب ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، کم عمری کی شادی اور غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ضلع میں ڈاکٹروں کی کمی کو بھی اس معاملے کی ایک اہم وجہ قرار دیا گیا کیونکہ صوبائی حکومت سندھ پبلک سروس کمیشن کی تمام اسامیوں کو پُر نہیں سکی اور عدالتی حکم کے بعد بدستور غیرفعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں:تھرپارکر میں مزید 7 نومولود دم توڑ گئے

ایمبولینس کی کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ 'کمیشن اب بھی موجود ہے اور سندھ حکومت کو ان کی آسامیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں لگے گا'۔

آئی جی سندھ کی کی مدت میں مزید توسیع

سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور بنچ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو (اے ڈی) خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف جاری اپنے عبوری حکم میں مزید پانچ روز کے لیے توسیع کردی۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے مدعی کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے اے ڈی خواجہ کو عہدے پر برقرار رکھنے کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد معاملے کو 16 مئی تک ملتوی کردیا۔

وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں صوبائی حکومت نے ایک مختصر وقت میں 13 پولیس سربراہان کو تبدیل کردیا ہے، ساتھ ہی انھوں نے اس معاملے کی ایک کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں:آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن معطل

فیصل صدیقی نے ایڈووکیٹ جنرل کے توسط سے صوبائی حکومت کی جانب سے جمع کرائے گئے موقف کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پولیس کے سربراہ کی تعیناتی میں سنیارٹی کا حوالہ دیا تھا لیکن ماضی میں اس حوالے سے کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کی جگہ گریڈ 21 کے افسر سردار عبد المجید کو تعینات کرنے کی کوشش کی جبکہ عبدالمجید دستی اسی اسکیل کے دوسرے افسر غلام قادر تھیبو سے جونیئر ہیں، جو اس وقت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے چیئرمین کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی آئی جی کی تعیناتی سنیارٹی کے بجائے اکثر پے اسکیل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔


یہ رپورٹ 12 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں