اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے داماد کیپٹن صفدر کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جمعرات (11 مئی) کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے رکن کی شمولیت کے بعد پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی مکمل ہوئی اور ٹیم نے متعلقہ انتظامیہ اور وزارتوں سے ضروری ریکارڈ کی طلبی کا باقاعدہ آغاز کیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر وزیراعظم اور ان کے داماد کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے وزیراعظم سے 1999 سے لے کر اب تک کے اثاثوں کی تفصیل طلب کی گئی تھی تاہم ای سی پی نے اس پر معذوری کا اظہار کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنا 2002 میں لازم کیا گیا تھا۔

چونکہ 1999 کے بعد نواز شریف نے جلاوطنی اختیار کرلی تھی اور انہوں نے 2013 تک انتخاب نہیں لڑا تھا، لہذا الیکشن کمیشن کے پاس ان کی 2013 سے قبل کے اثاثوں کی تفصیلات موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی شریف خاندان کے اثاثوں کی تفتیش کیلئے تیار

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کی خفیہ برانچ 2013 سے 2016 کے درمیان وزیراعظم کے اثاثوں کی تفصیلات کی فائل تیار کرچکی ہے۔

جے آئی ٹی کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کے مطابق اس بات کی تحقیقات لازمی ہیں کہ گلف اسٹیل مل کیسے قائم ہوئی اور اس کی فروخت کی وجہ کیا رہی، گلف اسٹیل ملز کے واجبات کا کیا بنا اور یہ جدہ، قطر، اور برطانیہ کیسے پہنچے، کیا حسین اور حسن نواز کے پاس 90 کے دہائی کے آغاز میں اتنے وسائل موجود تھے کہ وہ لندن میں فلیٹس خرید سکیں؟

اس کے علاوہ اس بات کی تحقیق بھی یقینی بنائی جائے گی کہ حماد بن جاثم بن جابر الثانی کے خط سچ تھے یا فراڈ، نیلسن اور نیسکول کا اصل بینیفیشل اونر کون ہے، فلیگ شپ انویسٹمنٹ سمیت وزیراعظم کے بیٹے کی جانب سے قائم کی گئی دیگر کمپنیوں کے لیے پیسے کہاں سے آئے جبکہ حسین نواز کی جانب سے نواز شریف کو دیئے گئے قیمتی تحفوں کا ذریعہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پانامالیکس: جے آئی ٹی کا سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ

سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کو وزیراعظم اور ان کے دونوں بیٹوں کو بوقت ضرورت طلب کرنے کے اختیارات پہلے ہی دیئے جاچکے ہیں۔

چونکہ عدالت کی جانب سے جے آئی ٹی کو نیب اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس موجود ریکارڈ کی جانچ کی ہدایت کی گئی ہے لہذا ٹیم حدیبیہ پیپر ملز کرپشن ریفرنس سیت دیگر دستاویزات کی جانچ کا آغاز کرچکی ہے۔

یاد رہے کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر ڈار نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں ریکارڈ جمع کرایا تھا جس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا بیان حلفی بھی شامل تھا۔

اس بیان حلفی میں انہوں نے وزیراعظم کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا تاہم بعد ازاں اسحٰق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان سے زبردستی اس اعترافی بیان پر دستخط لیے گئے تھے۔


یہ خبر 12 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں