مصباح الحق بھی ریٹائرڈ ہو گئے۔ کسی ایماندار سرکاری ملازم کی طرح، جس سے ساری زندگی اس کے اپنے بھی خفا رہے اور بیگانے بھی ناخوش۔

کیا شاندار کھلاڑی تھے اور اس سے بھی اچھے کپتان۔ اپنے شہرت یافتہ کپتان سے بھی زیادہ اچھے۔ 49 میچ کھیلے، 24 جیتے، 14 ہارے اور 11 برابر کیے۔

ٹیسٹ کی تیز ترین سینچری بنائی، پرائی ٹیموں سے میچ جیتے، گوروں کو ان کے گھر میں گھس کر مارا، مضبوط شجر کی طرح تیز آندھیوں میں سہمی ٹیم کو سہارا دیا۔ مگر قوم کے معدے کو ان کے بنائے رنز کبھی ہضم نہ ہوئے۔ ساری زندگی ٹُک ٹُک کا دم چھلا ساتھ لگا رہا۔

کسی چھوٹے موٹے کرکٹر کو طعنہ دینا ہو تو مصباح الحق کہہ دیا۔ کسی نے محلے کی ٹیڑھی پچ پر دو بالیں ضائع کر دیں تو بچارے قومی ٹیم کے کپتان کی مٹی پلید ہو گئی۔ کچھ نہ ملا تو ان کے نام کے شجرے کسی شکست خوردہ سورما سے ملا لیے۔

پڑھیے: عروج، زوال، پھر عروج: مصباح کی کہانی

چلو اب ریٹائرڈ ہوئے ہیں تو گھر والے بھی آرام سے بیٹھ جائیں گے کہ اچھا ہے بڑے میاں اللہ اللہ کریں۔ خواہ مخواہ دوسری بیگمات اور بچوں کی طنزیہ نظریں دیکھنا پڑتی تھیں۔

رشتہ داروں کو بھی سکون ہوگا کہ نہ کوئی سفارش کی ضرورت پڑے گی اور نہ انکار سننا پڑے گا۔ کہیں کہیں دو چار تعریفی کلمات سننے کو مل جائیں گے۔

'کیا بات کرتے ہو یار، اتنا برا بھی نہیں کھیلتا تھا'

'ٹیم ساری نکمی تھی جناب یہ بے چارہ کیا کرتا'

'اسلم کی اماں دیکھو تو سہی، کیسے پہاڑ سی جوانی بوجھ اٹھاتے اٹھاتے کاٹ ڈالی ہے، بالوں میں چاندی اتر آئی ہے'

'چلو اچھا ہوا، کچھ نیک نامی کی پنشن کما کے جائیں گے۔ اتنا تو بنتا ہے نا صاحب”۔

لیکن قوم کو شاید اب بھی مصباح سے وہ محبت نہیں ہو سکے گی جو دھواں دھار چھکے مارتے کسی یک میچی سورما سے ہوتی ہے۔

پڑھیے: بندوقوں کا کام اشاروں سے کرنے والا مصباح

آپ نے کبھی پنجابی فلم دیکھی ہے؟ پوری فلم میں ولن صاحب محنت کرتے نظر آتے ہیں، مسجد کے سنگ بنیاد پر، ہسپتال کے افتتاح پر، محلے کے بچوں کی روزہ کشائی میں، بیوہ کے لیے سلائی مشینیں دینے والی تقریب میں اور کرکٹ میچ کے فائنل میں۔ جبکہ ہیرو صاحب پوری فلم میں یا تو نشے میں دھت نظر آئیں گے یا پھر کسی اخلاقی طور پر مشتبہ دوشیزہ کی چوکھٹ پر۔

مار دھاڑ اور دنگے فساد کا حساب کتاب کیا جائے، تو ولن صاحب زیادہ تر احکامات دیتے نظر آتے ہیں اور ان کے اپنے ہاتھ سے مار پیٹ شاز و نادر ہی نظر آتی ہے، لیکن ہیرو بھائی دھڑا دھڑ بندے پھڑکا رہے ہوتے ہیں۔ اخلاقی حالات حاضرہ کی صورت حال یہ ہے کہ ولن تو ایک آدھ اسکینڈل میں ملوث نکلتا ہے لیکن ہیرو کم از کم دو تین نا محرم خواتین کے ساتھ یک طرفہ یا دو طرفہ چھیڑ چھاڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ہیرو صاحب مگر پھر بھی ہیرو ہیں کیوں کہ آخری سین سے پہلے کسی مزار پر یا محلے کی مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے جاتے ہیں اور وہاں کسی خوش گلو قوال صاحب یا صاحب درس پیش امام صاحب کے وعظ کی برکات سے معرفت کی ساری سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے کردار کے پینٹ ہاوس فلور پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ اب بھاڑ میں گیا ولن کا سارا سوشل ورک اور چولہے میں گئی میری اور آپ کی ساری لاجک۔ سینما فلور پر سیٹیاں ہیرو کے لیے ہی بچیں گے اور پان کی پچکاریاں اچھالتی ساری گالیاں ولن کا مقدر بنیں گی۔

فلموں کو چھوڑیں، اپنے ارد گرد ہی نظر ڈالیں۔ چچا صادق علی جو چوری چھپے آپ کے چھوٹے بھائی کے اسکول کی فیسوں میں آپ کے والد صاحب کی مدد کر رہے ہوں گے مگر کنجوس کہلائیں گے کیونکہ عید والے دن انہوں نے آپ کو عیدی میں پرانے نوٹ دیے تھے لیکن خالہ خورشید کی سخاوت کی دھوم سارے خاندان میں ہو گی کیونکہ ان کی دی ہوئی امیٹیشن والی چوڑیاں، منہ دکھائی کی رسم میں اصلی دکھائی دے رہی تھیں۔

بشیر صاحب کی عمر بھر کی کمائی سے خریدی نئی کار کا تذکرہ ہو نہ ہو لیکن ٹی وی پر تُکا لگا کر جیتی گئی موٹر سائیکل پر مبارک باد کے ایس ایم ایس سب نے کیے ہوں گے۔

پڑھیے: کپتان مصباح بمقابلہ کپتان عمران

بیٹی پوری تیاری کر کے امتحان میں اچھے نمبر لے لے تو اسے نئے جوتوں کے پیسے دے دیے جاتے ہیں لیکن بیٹا تقریری مقابلے میں بڑے بھائی کی لکھی تقریر پڑھ کر اول آ جائے تو سائیکل۔ سیاست میں دیکھیے۔ وہ صاحب جو میونسپلٹی کے ممبر ہونے کے زمانے سے، پچھلے 25 برسوں سے محلے کے مسئلے حل کروا رہے ہیں اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھیں گے لیکن وہ نیا چھوکرا جسے 'اوئے' اور 'ایسی کی تیسی کر دوں گا' کہنا آتا ہے وہ جیت جائے گا۔ جن کے کردار کی گواہیں دشمن بھی دیں، ان کو ان کے اپنے گھر والے بھی ووٹ نہیں دیتے اور جسے رشتہ ان کا اپنا سسر مجبوراً دے وہ آئین کی دفعہ 62۔‬ 63 پر بے تحاشا پورا اترتے ہیں۔

سو یارو بات سچی ہے چاہے آپ کو کڑوی لگے، مصباح الحق کی آہ کو اگر اتنی دیر لگی ہے اثر پانے میں تو اس میں قصور ان کا ہی ہے کہ اس موسیقی کے زمانے میں بے سری دعائیں کون سنتا ہے۔

زمانہ اتنے عرصے سے بہرا اس لیے ہے کہ ان کی فریاد میں لِے نہیں ہے۔ ان میں وہ ہیرو والی خصوصیات نہیں ہیں جو ہماری شخصیت پرست سوچ نے تراشی ہیں۔

سر جھکا کر محنت کر کے کامیابی حاصل کرنے والے مضامین کافی عرصے سے ہمارے قومی نصاب سے خارج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے تیاری بھی کی تو کیا کی۔ غوری سے غزنوی تک ہمیں وہی پسند ہیں جو چوکے چھکے مارتا آئے اور چوکے چھکے مارتا چلا جائے۔ باقی رہی ہار جیت کی تو وہ کھیل کا حصہ ہے صاحب۔ اللہ مالک ہے نا؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

YusUf May 17, 2017 03:00pm
Tehreer bahot achi hai, kafi nay zaviye dikhay.
Muhammad naseer May 17, 2017 03:19pm
Wonderful article. A real picture of our society.
Muhammad Ibrahim May 17, 2017 04:37pm
Buhat acha likha ha.Good article.
Razzaq May 17, 2017 05:38pm
بہت خوب لکھا ہے اور خاص طور پر ہمارے معاشرے کی پسماندہ سوچ کی بہت خوب عکاسی کی ہے۔ دراصل ہمیں چمکتی بھڑھکتی چیزیں ہی پسند آتی ہیں
Muhammad Asghar KHAN May 18, 2017 01:52am
Sir aap ney doodh ka doodh aur pani ka pani kar diya hey. Hum mishbah ko wo respect na dey sakey jitney k wo haqdar they. Aap ney un loogon ko bhi shut up call di hey jo kehtey hain k Imran khan aik kamyab captain tha. Agar misbah ney itney match jitwaye hain us ko bhi PM hona chaheye. Main kahon ga nahin q k har acha cricketer acha politician nahin ho sakta. Pakistan zinda abad
Murad May 18, 2017 04:06am
Nice blog... a mirror on the society's general attitudes...
Amir Khan May 18, 2017 09:52am
بات بھی کمال کی ہے اور بیان بھی کمال کا ہے۔ پریشان ہوں کہ اس تحریر کو کیسے خراج تحسین پیش کروں۔
جنید May 18, 2017 02:20pm
Wah janab kia kehnay. Bohat khoobsorti se likhi pori baat dil mein utar gyi.
Imran Ahmad Qasrani May 18, 2017 03:49pm
Bahut Khoob. jo nerv game khailay wo tuk tuk aur jo bina dimag k khailay woo boom boom aur result sifir.
عبدالرحمن May 18, 2017 09:18pm
مصباح الحق ایک بڑاکھلاڑی، بڑا انسان ہے۔ لیکن مجھے حیرت اور تعجب ان لوگوں پہ ہوتا ہے جو اس عظیم کھلاڑی کی حمایت میں دوسرے کھلاڑی کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں یا پھر کسی دوسرے کھلاڑی کیلئے اس کو نیچا دکھاتے ہیں۔ کیوں نہ ہم سب کو ہی ساتھ دیں اور تعریف کریں۔ کسی کوایک دن کا طعنہ دے کر حوصلہ شکنی سے بہتر ہے کہ اس کی تعریف کریں تاکہ کل وہ مزید اچھی کارکردگی۔ کسی ایک شخص، کمیونٹی، جماعت سے وابستگی ہمیں کسی دوسرے کی اچھائی نظرانداز نہ ہو جاۓ یا مخالفت میں ہم اتنا آگے نہ بڑھ جائیں کے واپسی کا سفر مشکل ہو