مغل شاہی فوج، کشمیری سپاہیوں کے ہاتھوں دو بار شکست کھانے کے بعد، بالآخر 1586 میں کشمیر میں داخل ہوئی تھی۔ کشمیری شہنشاہ سلطان یوسف چک کو اکبر کے حکم پر حراست میں لے لیا گیا اور پھر موجودہ ریاست بہار جلاوطن کر دیا گیا۔

جیسے ہی مغل سلطنت نے سری نگر میں اپنے پیر جمانا شروع کیے ہی تھے کہ مقامی افراد کی جانب سے ان کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مشہور کشمیری شاعر اور تاریخ داں ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب کشمیری نوجوانوں نے باہر سے آنے والے حکمرانوں پر پتھراؤ کرنا شروع کیا۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’اس مزاحمت میں اس قدر شدت تھی کہ مغلوں کو سری نگر کے اندر واقع اپنے انتظامی دارالخلافہ، نگر نگری کے گرد دیواریں کھڑی کرنی پڑیں، دیواروں کو کلائی کہا جاتا تھا’۔ پتھراؤ کرنے والے لڑکوں کو 'دلاور' پکارا جاتا تھا جس کا مطلب جرات مند یا بڑے دل والا ہے، انہوں نے ایسے نعرے تخلیق کیے جو آج بھی موجودہ ہندوستانی تسلط کے خلاف مزاحمت میں بھی مقبول ہیں۔

آزاد جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ محمد یوسف سارف اپنی کتاب کشمیریز فائٹ فار فریڈم میں رقم طراز ہیں کہ سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے پتھراؤ کو کھیل کے طور پر کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ وہ خائف تھے کہ یوں کشمیر میں سکھ حکمرانوں کے خلاف مزاحمت بڑھک سکتی تھی۔

رنجیت سنگھ نے سری نگر کی جامع مسجد میں نماز پر بھی پابندی عائد کی اور یہ مسجد 20 سال گھوڑوں کا اصطبل بنی رہی۔ بعد میں ڈوگرہ حکمرانوں نے بھی اس پابندی کو جاری رکھا، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کا اجتماع کشمیریوں پر ان کی بدترین حکمرانی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ٓ1865 میں سری نگر میں واقع زلداگر علاقے کے شال بُننے والوں نے مزدور بغاوت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے استحصالی نظامِ محصولات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ڈوگروں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئی۔

سیاح بیرن وون شون برگ، ڈوگرہ دور کے کشمیر کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں کہ، ’میں کئی جگہوں پر گیا ہوں مگر کہیں پر بھی انسانوں کے حالات کشمیریوں جیسے بدتر نہیں دیکھے‘۔

برٹش مشنری سیسیل ایرل ٹنڈیل بسکو نے لکھا کہ ’اگر ہم برطانویوں کو کشمیریوں جیسے بدتر حالات کا سامنا پڑتا تو ہم شاید انسانیت کی تمام حدود کو پا رکر لیتے۔’

1931 میں سری نگر میں ریڈنگ روم پارٹی، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لاہور یونیورسٹی کے کشمیری گریجویٹس پر مشتمل جماعت تھی، کے زیر اہتمام ایک عوامی جلسے میں شریک ایک شخص نے ہاتھوں میں ایک پتھر اٹھائے، ڈوگرہ دور کے شیر گڑھی محل کی طرف اشارہ کرنے لگا اور اپنے ساتھیوں کو ’ناانصافیوں، بربریت اور تسلط کی علامت، اُس محل کو مسمار کرنے پر راغب کرنے کی کوشش کی۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور جب لوگ سری نگر سینٹرل جیل کے باہر جمع ہو کر اس شخص کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگے تو ڈوگرہ سپاہیوں نے فائرنگ کی اور 22 مظاہرین مارے گئے۔

تقسیم ہند سے، لائن آف کنٹرول کے مشرقی حصے میں رہنے والے کشمیری ہندوستانی حکومت کی کارروائیوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ بدترین ریاستی مظالم کے باوجود ان کی حقِ خودارادیت کی تحریک میں ذرا برابر بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔

کشمیریوں کی نئی نسل اس جدوجہد کو ایک نئی جہت بخش چکے ہیں۔ اپنی آوازوں کو ریاست کی جانب سے دبائے جانے اور جمہوری حقوق محدود کیے جانے پر اب نوجوان اور پڑھے لکھے افراد سوشل میڈیا کا رخ کر چکے ہیں۔

جہاں نہ صرف وہ ہندوستانی بربریت کے شواہد فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ آج کے دلاور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے بھی نہیں ڈرتے، ظالمانہ طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں، اور اپنی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

حال ہی میں منظر عام آنے والی ایک ویڈیو جس میں ہندوستانی فوج فاروق احمد ڈار کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے، یہ ویڈیو ایک مثال ہے کہ کس طرح ہندوستانی کارروائیاں دنیا بھر کے لوگ براہ راست دیکھ رہے ہیں۔

رابطہ کاری کے ان جدید ذرائع سے خائف ہو کر، ہندوستانی ریاست نے گزشتہ ہفتے کشمیر میں سوشل میڈیا ویب سائٹس پر یہ بہانہ بنا کر پابندی عائد کر دی کہ ایسے ’ضرر رساں عناصر’، ’پُر امن ماحول’ کو خراب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

جبکہ یہی وہ سوشل میڈیا جہاں ہندوستانی فوجی افسران، کرکٹ کے کھلاڑی، فلمی ستارے، سیاستدان، صحافی اور ٹرولز کشمیریوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ہندوستانی پالیسیوں پر جشن مناتے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔

ہندوستان کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ فوجی اور سیاسی طور پر کشمیر پر اپنا اختیار قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کے دل جیتے ہیں اور نہ ہی دماغ۔ لچکدار رویے اور بے پناہ وسائل1 کے مالک کشمیریوں نے پابندیوں کو عبور کرنے اور میڈیا بلیک آؤٹ کو توڑنے کے لیے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال کر رہے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ اب جنگ کا دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے ایک سہہ جُزہ امن بحالی کے مرحلے کی جانب بڑھا جائے۔ مسائل نظر انداز کر دینے سے مسائل حل نہیں ہو جائیں گے۔ کشمیر تنازع، کشمیریوں سے ہاری ہوئی جنگ جاری رکھنے سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔


انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں