نفرت کے تاجروں کو کچھ مقامات پر تو غیر مؤثر کر دیا گیا ہے، مگر وہ اب بھی سوشل میڈیا پر متحرک نظر آتے ہیں۔

ڈان اخبار کی ایک تفصیلی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع فرقہ وارانہ گروہ، بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں، سندھی اور بلوچی علیحدگی پسند اور ان کے ہمدرد کس حد تک فیس بک کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی 64 تنظیموں میں سے 41 فیس بک پر موجود ہیں، اور 700 سے زائد پیجز، گروپس اور انفرادی پروفائلز کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں۔

سائز کے اعتبار سے دیکھیں تو اہلِ سنت و الجماعت 200 پیجز اور گروپس کے ساتھ فیس بک پر موجود سب سے بڑی پاکستانی کالعدم تنظیم ہے۔ اس میں سپاہِ صحابہ پاکستان کے یا اس سے تعلق رکھنے والے 148 پیجز اور گروپس کو شمار نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ اہلِ سنت و الجماعت سپاہِ صحابہ کی ہی جدید شکل ہے جسے 2002 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

اگر حالیہ واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس تحقیق پر غور کیا جائے، تو یہ اس بات کا ایک پریشان کن ثبوت ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں اس ملک کو لاحق حقیقی خطرے کے بارے میں کس قدر تذبذب پایا جاتا ہے۔ اور جس مذہبی تشدد نے پاکستان کو گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ تذبذب نہایت حیران کن ہے۔

دیکھیں کہ کس طرح حکام فیس بک پر اسٹیبلشمنٹ مخالف پوسٹس کرنے والوں کو پکڑ رہے ہیں، اور کس طرح انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 'سیکولر' نظریات کے پرچار کرنے والوں کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ اس طرح کے افراد یا ترقی پسند سول سوسائٹی گروہوں نے پاکستان میں کون سی برادری کے خلاف نفرت پھیلائی ہے، گستاخی کا الزام لگا کر کتنے لوگوں کا قتل کیا ہے، یا عقیدوں کی بنیاد پر پاکستانیوں کو پاکستانیوں کے خلاف کھڑا کیا ہے؟

اپنی انہی غلط ترجیحات کی وجہ سے ریاست فوجی آپریشنز کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد کو قائم رکھنے کے لیے دہشتگردی مخالف بیانیے کی تشکیل میں ناکام ہو چکی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان اپنے مقاصد میں واضح تھا کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کی تمام صورتوں میں سے کسی پر بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

یہ بات طے ہے کہ فیس بک نے اپنی ویب سائٹ سے اشتعال انگیز مواد ہٹانے میں مشکلات کا اعتراف کیا ہے، مگر حکومت کو اس معاملے پر کمپنی کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی جانب سے فیس بک پر کالعدم تنظیموں کے گروپس کی موجودگی پر بریفنگ طلب کرنے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ مسئلہ مناسب توجہ کے ساتھ حل کیا جائے گا۔

کالعدم تنظیموں پر پابندی کے مکمل نفاذ کے علاوہ ریاست کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان تنظیموں کے رہنماؤں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جائے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔

اس کے علاوہ عوام کو ان 64 تنظیموں پر پابندی کی وجہ بھی سمجھانا چاہیے۔ مثلاً ان تنظیموں میں سے چند براہِ راست تشدد میں ملوث نہیں مگر وہ جمہوری نظام کے مخالف ضرور ہیں۔

عوام کو یہ ضرور سمجھانا چاہیے کہ انتہاپسندی کیا ہے اور بظاہر معصوم نظر آنے والے کون سے راستے بالآخر اس جانب لے جاتے ہیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 31 مئی 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں