کوپن ہیگن کے علاقے نیروبرو میں ایک پاکستانی دکاندار ایک شخص سے کہہ رہا تھا کہ یہ جو آموں کی پیٹیاں بچ گئی ہیں اب بکنے کے قابل نہیں رہیں، اب ان کو لے جائیے، ملک شیک بنائیے اور بانٹیے۔

میں پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان سے آم منگوانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس شخص سے جو بظاہر آم منگوا کر بیچنے والا تھا، اس سے میں نے ماجرا پوچھا تو اس نے بتایا کہ جو آم وہ پاکستان سے منگواتے ہیں وہ یہاں پاکستانی دکانوں پر رکھ دیے جاتے ہیں جو بیچنے کے بعد اس کی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔ جو مال بچ جائے اس کو واپس اٹھوا دیتے ہیں، کبھی کبھی بیچے ہوئے مال کے پیسے لینے کے لیے چکر بھی لگانے پڑ جاتے ہیں، غرضیکہ پاکستانی طبیعت کے دکاندار جہاں جہاں موجود ہیں ان کو غرض صرف اور صرف اپنے منافع سے ہوتی ہے۔

پاکستان کی زرعی مارکیٹ میں دنیا کے منشیات مافیا سے بڑا ایک مافیا کام کر رہا ہے جسے انگریزی میں مڈل مین، اردو میں آڑھتی اور سادہ پنجابی میں وچولا کہا جا سکتا ہے۔ اس مافیا کا کام پروڈیوسر سے ارزاں نرخوں پر چیز خریدنا اور گاہگ کو مہنگے داموں فروخت کرنا ہوتا ہے۔

عمومی طور پر ان آڑھتیوں کے خریدار ان سے تھوک میں سامان اٹھاتے ہیں اور پرچون میں فروخت کر دیتے ہیں۔ جو چیز کسان سے دو روپے میں خریدی گئی تھی، وہ آڑھتی اور پرچون فروش کا منافع ڈالنے کے بعد گاہگ تک دس گنا قیمت میں پہنچ پاتی ہے۔

پڑھیے: قیمتوں میں اضافے پر پھل نہ خریدنے کی مہم کا آغاز

چلیے اس کاروبار میں کوئی جنس اگانے والے اور اس کو بیچنے والے کی تو سمجھ آتی ہے مگر یہ مڈل مین کس بلا کا نام ہے جو دونوں اطراف سے منافع کما رہا ہوتا ہے؟ وہ پیدا کرنے سے اس کا مال اٹھا کر پرچون فروش تک پہنچاتا ہے اور اپنا کمیشن پاتا ہے، کیا اس کنکشن کی ضرورت ہے؟ کیا کسان کو اپنی جنس بیچنے کے لیے ایک مڈل مین کی ضرورت ہے؟

بظاہر تو لگتا ہے کہ اس ایک رابطے کی کوئی خاص ضرورت نہیں، لیکن پاکستانی کاروباری کلچر میں اس رابطے کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں. زرعی ادویات بیچنے والی کمپنی میں کام کرنے کے دوران میں نے ان مڈل مین اور آڑھتیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا کام کمزور زمیندار کو کسی بھی فصل کے اگاؤ کے بیچ، کھاد، اور دیگر زرعی مداخلات قرض پر دینا، اور فصل کی برداشت کے بعد سود کے ساتھ اپنی رقم وصول کرنا ہے۔

پچھلے سال اپنے شہر کے ایک آڑھتی سے میں نے پوچھا کہ آپ کی اس وقت مارکیٹ میں کتنی رقم موجود ہو گی، یعنی آپ نے اب تک کتنی رقم کا سامان ادھار دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا تقریباً چار کروڑ۔ میں نے پوچھا جب آپ نے تیس سال پہلے کاروبار آغاز کیا تھا تو کتنے روپے سے کیا تھا، جس کا جواب تھا شاید ایک دو لاکھ۔

اب عملی طور پر ہوتا کیا ہے کہ کسان نے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ادھار پر مال اٹھایا وہ کیڑے مار دوا جو اسے تین سو کی مل سکتی تھی ادھار پر چھے سو میں ملی۔ جب فصل آئی کسان نے کچھ پیسے لوٹائے، دوا کی قیمت تو واپس چلی گئی، لیکن سود اپنی جگہ موجود رہا، اور یوں کسان سود در سود آڑھتی کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فصل کی تیاری کے بعد اس کو بیچنے کا فیصلہ بھی یہی مڈل مین کرتا ہے، اس کی قیمت بھی یہی مڈل مین طے کرتا ہے۔ اور یوں مڈل نے جب بیج بیچا تو منافع کمایا، جب فصل بکی تب منافع کمایا، یعنی ہمارے اس نظام میں جس شخص کو کسی موسم میں نقصان نہیں پہنچتا وہ مڈل مین ہے۔ اس کو غرض نہیں کہ زمیندار کی فصل کیسی رہی، موسم کیسا تھا، پانی پورا تھا یا کم، اس کو غرض اپنے منافع سے ہے اور بس۔

مزید پڑھیے: منڈی ایکسپریس: سبزی، پھل، گوشت آن لائن دستیاب

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس استحصالی نظام کو کون ختم کرے گا، اس کا جواب میرے پاس موجود نہیں، لیکن موجود سماجی میڈیائی دور میں ایک امید کی کرن ضرور نظر آتی ہے کہ کسی طرح سے پروڈیوسر اور کنزیومر کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور یوں پیدا کرنے والے تک اپنی جنس کا منافع پہنچے۔

اس کی کئی ایک کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ امرود کے سیزن میں لاہور ملتان روڈ پر جگہ جگہ امردوں کے خوبصورت ٹوکرے سجائے باغوں والوں نے اپنے سٹال لگا رکھے ہوتے ہیں۔ اگر وہ چالیس پچاس روپے کلو بیچ رہے ہیں تو یہ سارے پیسے ان کی اپنی جیپ میں جا رہے ہیں، وگرنہ وہ بیس روپے کے حساب سے منڈی میں بیچتے، وہاں سے آڑھتی پچیس روپے کے حساب سے پرچون فروش کو دیتا اور پرچون فروش چالیس پچاس روپے میں آپ کو بیچ دیتا۔

ایسے ہی آموں کے سیزن میں ملتان سے خانیوال کے راستے میں بے شمار سٹالز نظر آتے ہیں اور کینو کے سیزن میں سرگودھا اور بھلوال کی سڑکوں کے کنارے پھلوں سے سجے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

آج یہ پھل، زراعت اور مڈل مین کی کہانی اس لیے آپ کو سنا رہا ہوں کہ ہمارے کچھ دوست سوشل میڈیا پر مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں جمعہ، ہفتہ اور اتوار وہ پھل نہیں خریدیں گے۔

احباب ایک سادہ سی بات بھی نہیں سمجھے کہ پھلوں کا بائیکاٹ کرنے سے کسی کا نقصان ہو گا تو بے چارے کسان کا یا پرچون فروش کا، مڈل مین کی تو اس پھل کو پیدا کرنے میں کوئی محنت صرف نہیں ہوئی، اور اتنے سالوں میں آپ کی محبت کے طفیل وہ اتنا تگڑا ہو چکا ہے کہ دو چار روز کے بائیکاٹ کو وہ چھٹی کی طرح انجوائے کرے گا۔

ایک پرچون فروش سے آپ کتنا بھاؤ تاؤ کر سکتے ہیں؟ آپ اس کی خریداری کی رسید دیکھ لیں اور اس سے اوپر جتنا منافع اس کو دینا ہو دے دیجیے، لیکن اس طرح سے چھوٹے پھل فروش کا بائیکاٹ کرنا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن ہاں میں تو اس مہنگائی سے دور بیٹھا ہوں، احتجاج کرنے اور نہ کرنے کا فیصلہ آپ خود ہی کر لیجیے، لیکن ایک ایسی بات جو پتھر پر لکیر کی طرح ہے وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

پروڈیوسر اور کنوزیومر کے درمیان جتنے لوگ بھی منافع پرست ہیں ان کو باہر نکالنے کی سبیل کیجیے اور اپنے اپنے علاقوں کے پھل پیدا کرنے والوں سے رابطہ کر کے ان کے پھل لوگوں تک خود بیچنے کی ترغیب دیجیے۔

دور دراز کے علاقوں میں لیجانے کے لیے سپر اسٹورز کو آ گے آنا ہو گا جو پروڈیوسر سے مال اٹھا کر معمولی منافع رکھ کر خریدار تک یہ مال پہنچا دیں۔ لیکن مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے فیس بک صفحات سے مدد لی جا سکتی ہے۔

چوآسیدن شاہ کے لوکاٹ، گوجرانوالہ سے لیچی، سرگودھا کا کنو، ماناوالا کی گوبھی، شیخوپورہ کے امردو، شجاع آباد کے آم، اس طرز کے فیس بک صفحات سے مقامی طور پر لوگوں کو سستی اشئیا خریدنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ روایتی مڈل مین کے چنگل سے نکل کر اپنی مصنوعات کو خود خریدار کے دروازے تک لانے کی سعی کریں۔

ہو سکتا ہے کہ اس طرح مستقبل میں ہمیں پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

Sheri Jun 02, 2017 04:43pm
I agree with you. Well said.
Ahmed Zarar Jun 02, 2017 04:46pm
An eye opening article .I never think about it .Next time I shall try to reach the grower .But if the grower wants the profit of middle man the my efforts will be zero.
حسن اکبر Jun 02, 2017 06:48pm
آپ نے بہت ہی بروقت آرٹیکل تحریر کیا ہے ۔ اور نہایت ہی درست سمت کی نشان دہی کی ہے ۔ آپ کا بہت شکریہ
ahmak adami Jun 02, 2017 07:21pm
Encourage super stores throughout the country to improve control over prices. You can not check prices because of small shopkeepers.
kamran Jun 02, 2017 08:23pm
Nice one Br. Ramzan
رمضان رفیق Jun 03, 2017 07:29am
@Ahmed Zarar , it is in practice here in Europe, farmers sell directly to superstore, or consumer . I hope you will get a good price.
zafar Abbas Jun 03, 2017 01:01pm
میرا خیال ہے کہ پھلوں کو سستا کرنے کی تجویز سو فیصد درست اور قابل عمل ہے البتہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ہر پہلو سے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ، باقی اس کام کو التوا کا شکار نہیں ہونا چاہئےاور ارباب اختیار کو آگاہ کرنا بھی ضروری ہے
AK Jun 03, 2017 07:52pm
Great ideas . . . .thanks
Bilal Nasir Jun 04, 2017 08:43am
Very Good
Bilal Nasir Jun 04, 2017 08:44am
Very Good