اگر کوئی خاتون اپنے ماضی کا کوئی ناگوار تجربہ کھل کر سامنے لانے کی جرات کرے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ اس خاتون کو ایسی ہمت کرنے پر داد دی جائے، لیکن جیسے ہی وہ عوامی سطح پر اس حوالے سے کچھ بولتی ہے تو نتیجہ الٹا نکلتا ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔

یکم اگست کو رکن قومی اسمبلی اور اب سابق رکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، عائشہ گلالئی نے منظر عام پر آ کر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے اور دعویٰ کیا کہ انہیں اکتوبر 2013 سے عمران خان کے نازیبا میسجز موصول ہوتے رہے ہیں۔

عائشہ گلالئی نے پارٹی کے اندر، اور خاص طور پر پارٹی قیادت میں شامل ممبران کے درمیان، 'عورت مخالف سوچ' اور 'کرپشن' کی بھی شدید مذمت کی۔ عوام نے گلالئی کے الزامات بڑی حد تک مسترد کر دیے، اور ان کے خلاف شدید رد عمل دیکھنے کو ملا۔

رد عمل تو ناگزیر ہی تھا کیوں کہ اکثر ہراسگی کے معاملات میں جب بھی خواتین کچھ بولنے کی کوشش کرتی ہیں اور کسی عوامی شخصیت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں تو انہیں زیادہ تر دھتکار دیا جاتا ہے۔

عمران خان کے مداحوں نے فواد چودھری کے گلالئی پر غیر ضروری لفظی حملوں کو بھی سراہا، جن میں فواد چوہدری نے عائشہ گلالئی کی بہن ماریہ تورپیکئی کے اسکوائش کریئر اور ٹورنامنٹس کے دوران شارٹس، جو کہ ان کے کھیل کے یونیفارم کا حصہ ہے، پہن کر کھیلنے کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا۔

عائشہ گلالئی اور ان کی بہن دو الگ الگ انسانی وجود ہیں، اور مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے شخص کے دفاع کی خاطر انہیں ہدف بنائے جانے سے ہمیں اصل مسئلے کا پتہ چلتا ہے۔

اس قسم کے تبصروں سے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں سرایت شدہ عورت مخالف کلچر کا پتہ چلتا ہے، جہاں پارٹی ارکان اور حامیوں کے لیے کسی خاتون کو بے عزت کرنا آسان ہوتا ہے۔

زیادہ تر تنقید اس بات کو بنیاد پر بنا کر کی گئی کہ گلالئی نے برسوں کی خاموشی کے بعد اپنا مسئلہ اب کیوں بیان کیا۔ حتیٰ کہ چند خواتین، پارٹی اراکین، سیلیبریٹیز اور بدقسمتی سے حقوقِ نسواں کی ایک مشہور کارکن — نے بھی متاثرہ خاتون کے خلاف الزام تراشیوں میں حد پار کردی، اور گلالئی کو دیر سے اپنی بات بولنے پر برا بھلا کہا، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ، عائشہ گلالئی کے معاملے پر ان کے اپنے علاقے جنوبی وزیرستان، کی قبائلی روایات کے مطابق جرگہ بلایا جائے۔

پی ٹی آئی کی خواتین کارکن نے گلالئی کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنے ذاتی تجربات بتانے کا فیصلہ کیا۔

صرف اس لیے کہ آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور آپ کا ذاتی تجربہ الگ ہے، اس لیے ہراساں ہونے والی خاتون کی بات کو تسلیم نہ کرنا، روز بروز بڑھتی ہوئی عورت مخالف مزاج اور صنفی بنیادوں پر ہونے والی گالم گلوچ کو نظر انداز کرنے کے برابر ہے۔

پڑھیے: خواجہ آصف صاحب، صنفی تعصب معمولی بد تمیزی نہیں

یوں صنفی تعصب اور ہراسگی کی بھی غلط تصویر کشی ہوتی ہے، کہ جیسے ان کا مسائل کا تعلق سیاسی میدان سے نہیں، کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے سیاست جیسے شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے باعزت اور محفوظ ماحول کی فراہمی کی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔

اب ضروری ہے کہ ہم اس بات پر غور و فکر کریں کہ آخر کیوں ہراسگی کے زیادہ تر کیسز میں خواتین کو خفیہ طور پر خاموش رہنے کے لیے کہا جاتا ہے، اور جب وہ سب کے سامنے اپنے تلخ تجربے کو بیان کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو انہیں دھتکارا جاتا ہے۔ چنانچہ اب اگر گلالئی کے بیان — سچ یا جھوٹ — کو کئی لوگ ماننے سے انکار اور اس پر شدید رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔

جنسی ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین کو سماجی رد عمل کا خوف، مسلسل گھبراہٹ اور بلآخر اپنی شناخت کھونے کا ڈر لاحق ہوتا جس پر سبقت پانے میں برسہا برس لگ جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ذہنی کوفت سے بھی گزر رہی ہوتی ہیں۔

جب کوئی خاتون ہراسگی یا کسی قسم کی بدسلوکی کی شکار ہوتی ہے تو اس کا پہلا رد عمل ضروری نہیں کہ ہمیشہ غصے کی صورت میں نکلے، یا پھر وہ اس جرم کو رپورٹ کرنے کا ارادہ کر بیٹھے۔ ان کا رد عمل تقریباً ہمیشہ صدمے یا غیر یقینی کی کیفیت، لاچارگی اور سب سے لاتعلقی، یا پھر اپنے ساتھ ہوئے واقعے کا خود کو ذمہ دار ٹھہرانے کی صورت میں ہوتا ہے۔

دراصل انہیں ایک ایسے شخص کے ہاتھوں دھوکا ملا ہوتا ہے جس پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوتا ہے، لہٰذا ان کا ذہن اپنے ساتھ ہوئے اس تلخ تجربے کو تسلیم ہی نہیں کر پاتا۔ جب جب اپنی شکایات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کرتی ہیں تب تب ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، جس میں انہیں مخالفانہ رویوں کا ڈر لاحق ہوتا ہے۔

مزید برآں، "ٹھوس شواہد" پر منحصر قانونی کارروائی، قانونی ڈھانچہ، اور معاملات کو الجھانے کا کام کرنے والے قانونی حقوق، کی وجہ سے ایک خاتون پر ہونے والا ظلم ہی نظر انداز ہو جاتا ہے۔ ایسے میں آخر کس طرح کوئی اپنے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعے کو ثابت کرنے کی ابتدا کرے؟

گلالئی نے کہا ہے کہ عمران خان نے انہیں ہراساں کیا تھا اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے عمران خان کے بھیجے گئے میسیجز بھی فراہم کریں گی، لیکن مبینہ تلخ تجربے کو ثابت کرنے کے لیے یہ ثبوت کافی ہوگا؟

قانون سے مدد کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے اور عائشہ گلالئی کے دعووں پر معقول نتیجہ یہی اخذ ہوتا ہے کہ، "اگر وہ سچ بول رہیں ہیں تو انہیں عدالت کا رخ کرنا چاہیے."

مزید پڑھیے: ثنا مرزا کے بارے میں پاکستانیوں کے پانچ افسوسناک ردِعمل

عدالتی فورم کا رخ کرنا اس لیے بھی ضروری محسوس کیا جا رہا ہے کیونکہ ہمارا قانون کسی حد تک ایک خاتون کے ساتھ ہوئے کسی قسم کے تلخ تجربے پر قانونی چارہ جوئی کرتا ہے، ورنہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اپنے تلخ تجربے کو منظر عام پر لانے کا واحد یہی طریقہ ہے جس کے بعد ہمارے معاشرے کو اس بات کا احساس ہوتا ہے۔

لیکن ایک بات جسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ کہ قانون ایک خاتون کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی ذہنی کوفت کو خاطر میں لانے میں بار بار ناکام ہوا ہے اور، ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر، سماجی رویوں کو جائز قرار دینے میں اثر پذیر رہا ہے، خاص طور پر جب قانون کا اطلاق محتاط انداز میں کیا گیا ہو۔

لہٰذا قانونی نظام کو غیر جانبدار نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن بطور ایک ادارہ جو کہ بڑی حد تک پاکستانی تاریخ کی پیداوار ہے، اور اکثر اپنی مرضی کے مطابق ہی اپنا اختیار کا استعمال کیا ہے اور ساختی امتیازی کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔

اس واقعے نے ہمارے معاشرے کی صنفی سیاست کو آشکار کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہراسگی کا شکار بننے والی خواتین کو اپنے تلخ تجربات کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا موقع دیا جائے، انہیں ایک تماشے کے طور پر لیا جاتا ہے، وہ تماشا جو صرف مذاق اڑانے اور حقارت کے کام آتا ہے۔

ایک خاتون کے تجربات کو سنجیدہ نہ لے کر، ہم جان بوجھ کر بنیادی سطح پر اور اداروں کے کردار میں موجود مسائل کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ وہ چیلنجز سے بھر پور ہیں۔

مزید یہ کہ، بطور عوام، ہم کون ہوتے ہیں، جو وقت کا تعین کریں کہ ہراسگی کا شکار ہونے والی خاتون کتنے وقت کے اندر اندر اپنا تلخ تجربہ منظر عام پر لائے؟ جبکہ متاثرہ خاتون پر ہی الزام تراشی سے امتیازی کلچر کو بڑھاوا ہوگا جو ذاتی حملوں، کردار کشی اور یہاں تک کہ تشدد کے خطرات کو بھی درگزر کر دیتا ہے۔

عوامی شخصیات اور عام شہریوں کے بے حس بیانات اور غیر ذمہ دارانہ صحافت تک محدود رہنے کے بجائے، آپ کو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اس حد تک سنجیدہ الزام کو سب کے سامنے لانے سے ذاتی، سماجی اور پروفیشنل زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

پڑھیے: ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے متاثرین کے لیے 7 رہنما نکات

ایسے معاملات میں موجود طاقت کے عدم توازن کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہراسگی کا شکار بننے والے کا ساتھ دینا چاہیے، یا کم از کم، جب ایسی خاتون عوامی سطح پر آواز اٹھائے تو اس پر جھوٹے الزامات لگانے کا الزام دھرنے کے بجائے شک کا فائدہ دینا چاہیے۔


مزید یہ کہ عمران خان کوئی عام آدمی نہیں، وہ ایک سیاسی شخصیت ہیں، جنہوں نے پاناما کیس میں مسلسل احتساب پر زور دیا، ان پر فرض ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے آگے اپنے اوپر کسی قسم کے مبینہ الزامات سے خود کو بری کریں، اور دوسری کسی صورت میں، خود کو اپنے سیاسی اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق احتساب کے لیے پیش کریں۔


اب جبکہ انہوں نے عائشہ گلالئی کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے لہٰذا ثبوت کا جتنا بوجھ گلالئی پر ہے اتنا ہی ان پر بھی ہے۔

اپنے اندر موجود غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور خاتون سیاستدانوں کو مسائل کے مناسب ازالے کے نظام (اور ذاتی تحفظ کے احساس سے) سے محروم رکھنا، پی ٹی آئی ارکان اور ان کے حامیوں کی جانب سے صنفی بنیادوں پر تشدد کے مسائل پر آنکھ موندنے کے برابر ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


زویا رحمان اور ہجا کامران ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ali Aug 08, 2017 09:42am
Zoya koi solution tu batain?? akhir Ayesha ko ya kisi aur aurat ko akhir krna kya chahiye?? adalat janibdar hain aur soeicty support nahi karti (as you said) tu akhir aurat kary kya?? can you plz propose any solution???