نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو پاکستان کا 27 واں وزیرِ اعظم منتخب کیا جا چکا ہے۔ وزیراعظم عباسی کی کابینہ کے وزراء بھی حلف اٹھا چکے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ایک وزیرِ اعظم کی رخصتی کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پا گیا اور ملک میں جمہوریت کا تسلسل بھی برقرار رہا۔

مگر کچھ تلخ حقیقتیں بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونی چاہئیں۔ پاکستان اپنے قیام کے ستر برس مکمل کر چکا ہے لیکن اس دوران بدقسمتی سے کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدتِ حکمرانی مکمل نہیں کر سکا۔

پاناما لیکس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آچکا ہے۔ فیصلے کے بعد سیاست کا میدان پھر گرم ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنما ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ کوئی نواز شریف کی رخصتی کو قانون کی حکمرانی تو کوئی اسے جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ تاریخ ہی بہتر انداز میں کر سکے گی کہ حقیقت کیا ہے۔

پڑھیے: کیا جمہوریت کے تسلسل میں تمام مسائل کا حل ہے؟

نواز شریف نے عدالت عظمیٰ سے نااہلی کی سزا کے بعد آخرکار عوام کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ان کا سیاسی حق ہے گو کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اب وہ کوئی سیاسی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔

ایسے میں سیاسی تلاطم بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب وہ مزاحمتی طرز سیاست اختیار کر سکتے ہیں جس سے سیاسی انتشار کے علاوہ اداروں کے درمیان تصادم بھی پیدا ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کا جمہوری نظام براہ راست متاثر ہوگا۔

صورتحال جو بھی ہو، اصل فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے۔ میاں صاحب فیصلہ کر لیں کہ آپ کو تاریخ میں زندہ رہنا ہے یا ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی خاطر پورا نظام داؤ پر لگانا ہے۔ بصد احترام رائے یہ ہے کہ سول بالادستی ایسے قائم نہیں ہو گی بلکہ کمزور بنیادوں پر کھڑا یہ نظام دھڑام سے نیچے گر جائے گا اور سب خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ آپ سول بالادستی کا نعرہ لگا کر جمہوریت کی جڑیں کاٹنے جا رہے ہیں۔

میاں صاحب آپ کا المیہ یہ ہے کہ آپ نے ماضی سے کبھی سیکھا نہیں، حال ہی میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے باز نہیں آئے اور مستقبل کے لیے کبھی دیوار پار دیکھنے کی کوشش نہیں کی یا شاید آپ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

پڑھیے: کیا شریفوں کی خاندانی سیاست کا تسلسل انجام کو پہنچا؟

میاں صاحب پھر سوچ لیں، تصادم میں کمزور فریق ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے اور پاکستان کا جمہوری نظام ابھی استحکام کی اس نہج پر نہیں پہنچا جہاں تصادم کے لیے آپ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

اگر آپ جمہوری مزاج کے حامل اور جمہوریت کے حامی ہیں تو اپنی ذات کے خول سے نکل کر سوچیں۔ جمہوریت قائم ہے، آپ کی جماعت برسر اقتدار ہے اور وزیراعظم آپ کا اپنا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جمہوریت اور سول بالادستی کی تعریف صرف اور صرف میاں محمد نواز شریف کا وزیراعظم ہونا ہے؟

سول بالادستی کا نعرہ بہت متاثر کن ہے لیکن آپ کو سول بالادستی اپنی نااہلی کے بعد ہی کیوں یاد آئی؟

جب آپ وزیر اعظم تھے تو جس پارلیمنٹ نے آپ کو اس منصب پر فائز کیا تھا، بدقسمتی سے آپ وہاں جانا وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ سول بالادستی بذریعہ جرنیلی سڑک اسلام آباد سے لاہور تک مارچ سے قائم نہیں ہوگی۔ جس پارلیمنٹ کو مضبوط کر کے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا، وہ موقع آپ گنوا بیٹھے۔

سول بالادستی کا مطلب ہوتا ہے عوام کے ووٹ اور مینڈیٹ کی بالادستی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ووٹ لینے والوں نے ووٹ کا تقدس قائم کیا؟ کیا ووٹ کا تقدس ایک مخصوص دن پر حق رائے دہی کے استعمال، اس کے بعد اسمبلیوں کے قیام اور وزیرِ اعظم کے انتخاب تک محدود ہے؟

میاں صاحب آپ کے اور آپ کے بھائی کے بارے میں تو رائے یہ پائی جاتی ہے کہ آپ اپنی جماعت کے منتخب ارکان اسمبلی سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنے حلقوں سے متعلق گزارشات پیش کرتے ہیں۔ آپ کہیں گے یہ سب مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں لیکن انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے آج تک آپ کی جماعت اور حکومت نے کیا اقدامات کیے؟

اس حکومت کو طویل ترین دھرنے کا سامنا کرنا پڑا لیکن چار سال گزر جانے کے باوجود انتخابی اصلاحات نہیں لائی جا سکیں، یہ ہے آپ کا سول بالادستی قائم کرنے کا جذبہ؟

پڑھیے: جی ٹی روڈ ریلی: برطرفی عوام کے ووٹ کی توہین ہے، نوازشریف

قومی اسمبلی میں اس وقت آپ کی جماعت کے پاس کل 188 نشستیں ہیں لیکن کیا ان میں سے ایک بھی رکن اسمبلی پر آپ کی نظر کرم نہیں ٹھہری جو آپ کے بعد مستقل طور پر وزیرِ اعظم کا منصب سنبھال سکے؟ اپنی جماعت کے رہنماؤں کے سامنے مستقل وزیراعظم کے لیے آپ نے اپنے بھائی شہباز شریف کا نام پیش کیا اور فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ میرے بعد ان کی حمایت کی جائے۔ میاں صاحب اگر آپ کی خواہشات صرف اپنے خاندان تک محدود رہیں گی تو سول بالادستی ایک خواب بن کر ہی رہ جائے گی۔

سول بالادستی قائم کرنے کا طویل سفر سیاسی جماعتوں سے شروع ہوگا جب ان کو خاندانی اجارہ داری کا ذریعہ بنانے کے بجائے حقیقی جمہورریت کی حامل جماعتیں بنا دیا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں کسی مخصوص شخصیت کی محتاج ہونے کے بجائے خاص نظریے کی ترجمان ہوں گی۔ جس کے بعد صاف اور شفاف انتخابی عمل کا قیام ہوگا۔

بہتر طرز حکمرانی، شفافیت، قانون کی حکمرانی، قانون کا یکساں نفاذ، بہتر معاشی پالیسیاں، جمہوری نظام میں عوام کی براہ راست شمولیت اور نظامِ عدل میں اصلاحات کے بغیر سول بالادستی کا قیام ممکن نہیں۔ طویل اور صبر آزما سفر طے کرنے کے لیے سیاسی بصیرت کے ساتھ تحمل بھی درکار ہے ورنہ یہ پہیہ الٹا بھی گھوم سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

SHaheen changezi Aug 10, 2017 09:47pm
Don't worry sir! Pakistan is not at GT road only. And their show already flop. is se zeyada crowd to Jamate Islami bhi jama kar laitee...
محمد انيس رشيد Aug 10, 2017 11:42pm
کیا (p m l (n صرف شریف خاندان کا نام ہے؟ نواز شریف نا اہل ہوئے تو وزارت عظمی کے لئے خاندان ہی میں سے متبادل تلاش کیا جارہا ہے۔ کیا پاکستان بانج ہے جہاں ایک وزیر اعظم نا اہل ہوا تو شریف خاندان سے باہر کوئی شخص اس منصب کا اہل ہی نہیں رہا؟ نواز لیگ کے سارے لوگ صرف دربار سجانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ لوگ صرف شریف خاندان کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا این اے 120 سے شریف خاندان سے باہر کا کوئی فرد منتخب نہیں ہوسکتا؟ کسی بھی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا کہ پارٹی پر صرف ایک ہی خاندان کا قبضہ رہے۔ باپ گیا تو بیٹا یا بیٹی پارٹی کے معاملات سنبھالے، بیوی گئی تو شوہر ڈرائیونگ سیٹ پر قابض ہوگیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اندر تو جمہوری روایات کو پختہ نہیں کرتیں، لیکن ان کی خواہش رہتی ہے کہ دیگر ادارے ان کی پسند کی جمہوریت کا احترام کریں۔ نواز شریف صرف اپنی وزارت عظمی کو جمہوریت کی فتح سمجھتے ہیں، باقی پورے ملک کے عوام میں سے کسی بھی شخص کی وزارت عظمی کو غیر جمہوری سمجھتے ہیں۔ اس وقت حکومت نواز لیگ کی ہے لیکن نواز شریف احتجاج کررہے ہیں، آخر کس کے خلاف یہ احتجاج ہے؟ کوئی سوچے۔
ZA Syed Aug 11, 2017 02:33am
I am fully agreed with writer.
Gul Rais Aug 12, 2017 02:11am
بردارم عمر دراز بھائی آپ نے جس خوبصورتی اور الفاظ کے بہترین چناؤ سے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہےمیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتا میری دعا ہے کہ الله آپ کے قلم سے نئی نسل کی آبیاری کرنے میں آپ کی مدد کرے اور نوجوانوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے خوبصورت انسان اور قلم کار ان کو ملے اور الله آپ کی "عمر دراز "کرے. امین کچھ اضافہ کرتا چلوں کہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت آ جائے تو پھر ملک میں جمہوریت کی ازخود بالادستی ہو جاتی ہے۔ جہاں سیاسی جماعتیں خانوادوں کی طرح چلائی جاتی ہوں، اولاد کو شہزادوں، شہزادیوں کی طرح اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔سیاسی کارکن کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہ ہو، برسوں بلکہ عشروں جدوجہد کرنے والے وفادار رہنماﺅں کو بھی قیادت ملنے کا کوئی امکان نہ ہو، اہم منصب صرف بھائی ، بھتیجوں، بیٹی کے لئے مختص ہوں۔تب اسے جمہوریت نہیں بلکہ نام نہاد جمہوریت کہا جاتا ہے ۔یہ ذہن میں رکھیں اس کی خاطر کوئی جان نہیں دیتا۔معاف کیجئے میاں نواز شریف صاحب ، آپ جمہوریت کا مقدمہ لے کرکھڑے نہیں ہوئے۔ یہ سویلین بالادستی کی نہیں ، آپ کی ذاتی لڑائی ہے۔
Gul Rais Aug 12, 2017 09:40pm
فلم مغل اعظم میں جہانگیر کا کردار ادا کرنے والے دلیب کمار کا کہنا تھا کہ فلم ختم ہونے کے چھ ماہ تک میں اپنے آپ کو شہنشاہ جہانگیر ہی سمجھتا رہا اور میری حالت پاگلوں جیسی ہو گئی تھی مجھے کئی عرصہ ماہر نفسیات سے علاج کروانا پڑا . اسی طرح کا حال اب نوازشریف کا ہے جسے یقین نہیں ہو رہا اس کا 35 سالہ عروج زوال پذیر ہو چکا ہے اور وہ نااہل ہو چکا ہے . نوازشریف کو سوال پوچھنے کی بجاے مجھے کیوں نااہل کیا گیا کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس جانا چاہیے
israr Muhammad Khan Aug 15, 2017 02:06am
آپکے تجزیے سے جزوی اتفاق کیا جاسکتاہے خاندانی سیاست صرف ن لیگ میں نہیں جماعت اسلامی ایم کیو ایم کو چھوڑ کر باقی تمام جماعتوں کا یہی حال ھے ھم نوازشریف کو کوئی بڑا لیڈر نہیں مانتے لیکن وہ اج جو بات کررہا ھے ایسی باتوں پر ماضی میں چھوٹے صوبوں کے لیڈرز غدار ٹہرائے جاچکے ھیں دیکھتے ھیں کہ پنجاب کے لیڈر کو غداری کا اعزاز حاصل ھوتا ھے یا نہیں لیکن ایک بات ضرور کرینگے کہ پارلیمان ووٹ اور عوامی بالادستی کی ھم حمایت کرتے ھیں ھم محدود جمہوریت یا کنٹرول ڈیموکریسی کے حلاف ھیں ھم چاہتے کہ ادارے ائین کے اندر دیئے طے شدہ اختیارات کے اندر کام کریں یہ صفحے والی بات ھم نہیں مانتے ھم سمجھتے ھیں کہ وقت اگیا ھے کہ یہ بات طے ھونی چاہئے کہ حق حکمرانی کس اور کیسی ھوگی ھم احتساب کے حق میں ھے لیکن احتساب کا بہانہ بناکر کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیل جج صحافی مولوی کارخانہ دار سیول بیوروکریٹ سمیت سب کے ساتھ حساب کتاب ھونا چاہئے