وطن کا دفاع مضبوط بنانے والے نامور سائنسدان

وطن کا دفاع مضبوط بنانے والے نامور سائنسدان

صادقہ خان


1971 کی جنگ کے بعد ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پرگرام کو مؤثر بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے کوششیں تیز تر کردیں، وہ اُس وقت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر مملکت کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے اور بعد میں صدرِپاکستان اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

20 جون 1972 کو ملتان میں منعقدہ اجلاس میں ملک بھر سے مایہ ناز سائنسدانوں کو مدعو کیا گیا تاکہ اس حوالے سے اہم مشاورت کی جاسکے۔

پلوٹونیم افزودگی میں حائل کئی بڑے مسائل کے باعث منصوبے کو اُس وقت التواء میں ڈالنا پڑا، جب 1974 میں اچانک بھارت نے پھوکران ون ایٹمی دھماکا کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

آج جو ہم ایک آزاد فضا میں بنا کسی خوف و خطر سانس لیتے ہوئے ’یوم دفاع پاکستان ‘منا رہے ہیں، تو یہ ان سیکڑوں نامور سائنسدانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جنھوں نے انتہائی قلیل مدت میں ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے وطن عزیز کو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔

درج ذیل سائنسندانوں نے ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

27 اپریل 1936 کو جنم لینے والے پاکستان کے نامور سائنسدان، نیوکلیئر فزکسٹ اور میٹلرجیکل انجینئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’محسنِ پاکستان‘ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔

1974 میں پاکستان آمد کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان لگ بھگ ایک سال تک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر منیر احمد خان کو پلوٹونیم کی جگہ یورینیم افزودگی کے منصوبے پر قائل کرتے رہے، جس کے نتیجے میں 1975 میں انھیں اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا اور انھوں نے ڈاکٹر خلیل قریشی کے ساتھ گیس سینٹری فیوجز پر تحقیقات کا آغاز کیا جو نسبتاً ایک نیا آئیڈیا تھا۔

انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری یا ای آر ایل کے قیام کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ای آر ایل کے سائنسدان علیحدہ علیحدہ تحقیقات کرتے رہے، 1981 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ای آر ایل کا ڈائریکٹر بنا کر اس کا نام اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا گیا، جہاں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ شب و روز کی اَن تھک محنت کے بعد 1984 تک پہلی اٹامک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوئے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہی، پہلے ان پر ہالینڈ سے ایٹمی معلومات چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس سے وہ باعزت بری ہوئے تو 2004 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ایک دفعہ پھر حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کی چارج شیٹ لگادی گئی، جس پر انھیں اپنے گھر میں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ عدالت اور عوامی رد عمل پر ان کی نظربندی کچھ عرصے بعد ختم کردی گئی تھی، مگر آج بھی ملک کے یہ نامور سپوت انتہائی گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہوئے اُس عزت اور اعزاز سے محروم ہیں جو ’محسنِ پاکستان‘ کی حیثیت سے ان کا اولین حق ہے۔

ڈاکٹر عبد السلام

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ڈاکٹر عبدالسلام 29 جنوری 1926 کو پنجاب کے ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے، انہیں نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی سائنسدان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو انھیں 1979 میں کمزور الیکٹرک فورسز یا یونی فکیشن تھیوری پر دیگر 2 مغربی سائنسدانوں کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام سے طویل عرصے تک براہِ راست تعلق رہا اور انھوں نے 1960 سے 1974 تک حکومت پاکستان کے سائنس ایڈوائزر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے ہوئے وطنِ عزیز میں سائنس و ٹیکنالوجی کے ابتدائی انفراسٹرکچر کے خدوخال تشکیل دینے کے ساتھ سائنسی تحقیق کو پروان چڑھانے میں مئوثر کردار ادا کیا۔

ان ہی کی کوششوں سے ’سپارکو‘ کا قیام عمل میں آیا، جو اب تک پاکستان کا واحد خلائی تحقیقاتی ادارہ ہے، اس کے ساتھ وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے سائنسدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے بھی سرگرم رہے اور ان کی کوششوں سے ’ تھیوریٹیکل فزکسٹ’ اور ’میتھا میٹیکل فزکسٹ‘ گروپس تشکیل پائے،اس لیے انھیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ’سائنٹیفک فادر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے نامور سائنسدان

1965 میں ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کی اجازت سے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے قیام کے لیے کینیڈا کے ساتھ معاہدہ کیا، اسی برس ان کی کوششوں سے نہ صرف امریکا سے ریسرچ ری ایکٹر کی فراہمی کا معاہدہ طے پایا، بلکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز کے قیام کے لیے انہوں نے ایڈورڈ سٹون کے ساتھ معاہدہ بھی کیا، جس نے یورینیم افزودگی اور ری ایکٹر سائنسز تحقیقات میں بنیادی کردار ادا کیا۔

مگر بد قسمتی سے ہمارے یہ بے انتہا با صلاحیت سائنسدان 1974 کے اواخر میں ذاتی وجوہات اور احمدی فرقے کو غیر مسلم قرار دینے کے باعث ملک کو خیر باد کہہ گئے، ان کی قابل قدر خدمات پر انھیں اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر منیر احمد خان

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ڈاکٹر منیر احمد خان کو بجا طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق کہا جا سکتا ہے، طویل عرصے تک انٹرنیشنل اٹامک نرجی کمیشن سے سینئر ٹیکنیکل اسٹاف کے طور پر وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے ’ری ایکٹر خان‘ کا خطاب حاصل کیا۔

ری ایکٹر ٹیکنالوجی اور پاور پلانٹس میں ان کے تجربے کو پرکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا اور ان کی سربراہی میں پلوٹونیم افزودگی کے منصوبے کا آغاز ہوا،جس کے لیے ڈاکٹر منیر نے فرانس اور چند ممالک کے ساتھ کچھ معاہدات بھی کیے، مگر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی آمد کے بعد سائنسدان 2 گروہوں میں بٹتے گئے اور بلاآخر پلوٹونیم منصوبے کو التواء میں ڈالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے یورینیم افزودگی کے لیے گرین سگنل دے دیا۔

ڈاکٹر منیر کو اپنے طویل کیریئر میں یہ کریڈٹ حاصل رہا کہ ایک ذمہ دار عہدے پر فائز رہتے ہوئے انھوں نے خود کو بہت حد تک تنازعات سے دور رکھا اور اپنی توجہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج اور نیوکلیئر تحقیقات پر مرکوز رکھی۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ کہوٹہ انرچمنٹ پلانٹ کا قیام تھا، جہاں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک نامور سائنسدانوں نے دن رات کام کرتے ہوئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔

کہا جاتا ہے کہ یورینیم افزودگی کے 24 مراحل میں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ٹیم نے صرف ایک اسٹیج مکمل کیا، جب کہ باقی 23 مراحل کہوٹہ لیبارٹریز میں پاکستان اٹامک انرجی کے ماتحت تکمیل کو پہنچے۔

ڈاکٹر منیر 1991 تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر فائض رہے، ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی

ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی 15 اپریل 1921 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور 1942 میں انڈین سول سروسز کا امتحان نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا، انہوں نے امپیریل کالج لندن سے الیکٹران ڈفریکشن پر تھیسس لکھ کر پی ایچ ڈی کیا، جس میں انھیں مشہور زمانہ ماہر طبیعات نیل بوہر نے سپر وائز کیا۔

1954 میں پاکستان آمد کے بعد انھوں نے ڈائریکٹوریٹ آف سائنس، حکومتِ پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور ابتدائی نیوکلیئر پالیسیز بنانے میں مئوثر کردار ادا کیا۔ بعد ازاں انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چئیرمین منتخب کیا گیا، جس پر وہ 1972 تک تعینات رہے اور ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ’سپارکو‘ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کراچی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز کا قیام بھی ان ہی کی کوششوں سے ممکن ہوا، ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے اور اس حوالے سے ان کے ذوالفقار علی بھٹو سے شدید اختلافات بھی رہے کیوں کہ وہ صرف ایٹم بم کی تیاری میں دلچسپی رکھتے تھے۔

تاہم اختلافات کے باوجود ڈاکٹر عبد السلام کے ساتھ دیرینہ دوستی نبھاتے ہوئے وہ ایٹمی پروگرام کے لیے بھی بھرپور طور پر متحرک رہے، ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے ان کی ملکی سائنسی پالیسی پر نہ صرف گہری نظر تھی، بلکہ انھوں نے نیشنل سائنس پالیسی کے اصل خدوخال تشکیل دینے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔

ان کی کوششوں سے سیکڑوں باصلاحیت طلبہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، ڈاکٹر عشرت حسین کو ’فادر آف اٹامک انرجی کمیشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستان کو ایٹمی قوت رکھنے والی عالمی طاقتوں کی صف میں شامل کروانے میں ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی کا بہت بڑا ہاتھ رہا، ان کی خدمات کے بدلے انہیں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی 1908 میں حیدرآباد (برٹش انڈیا) میں پیدا ہوئے، کیمبرج یونیورسٹی سے میتھمیٹکس میں ماسٹرز اور لیپزگ یونیورسٹی جرمنی سے میتھمیٹکس اور کوانٹم فزکس میں پی ایچ ڈی کیا۔

1960 کے اوائل میں وہ برٹش ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہوئے اور کیوینڈش لیبارٹری میں دوران تحقیق کئی اعلیٰ ریسرچ پیپر تحریر کیے، جو مؤقر سائنسی جرائد میں شائع ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد وہ گورنر جنرل کی درخواست پر کراچی منتقل ہوئے اور 1950 میں آل پاکستان میتھمیٹکس ایسوسی ایشن قائم کی، وہ تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے مسلسل کوشاں رہے اور ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں سندھ و پشاور یونیورسٹیز کے علاوہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا وائس چانسلر بھی مقرر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کیا سائنس خواتین کے لیے نہیں ہے؟

وہ پاکستا ن اٹامک انرجی سے بھی منسلک رہے اور ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی اور ڈاکٹر ریاض الدین کے ساتھ مل کر تھیوریٹیکل اور میتھا میٹیکل فزکسٹ گروپس بنائے، جن کے ذریعے نہ صرف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ایٹمی پروگرام پر گراں قدر تحقیقات ممکن ہوئیں، بلکہ وطن عزیز میں ایڈوانسڈ میتھمیٹکس کی تعلیم کو فروغ دینے میں بھی مدد ملی۔

ان کی نمایاں خدمات کے بدلے میں حکومت پاکستان نے انہیں 3 سول اعزازات، ستارۂ امتیاز، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر ریاض الدین

ڈاکٹر ریاض الدین 14 نومبر 1930 کو لدھیانہ (برٹش انڈیا ) میں پیدا ہوئے، ان کا شمار ڈاکٹر عبدالسلام کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا، انہوں نے پاکستان اٹامک نرجی کمیشن میں قائم تھیوریٹیکل فزکسٹ گروپ کے ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا۔

ان کے بھائی فیاض الدین بھی ایک قابل فزکسٹ تھے، جنھیں ڈاکٹر عبدالسلام کے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق تھے اور ایٹمی ہتھیاروں کا حصول نا گزیر تھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر ریاض الدین کو بیرون ملک بھیجا، جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف میری لینڈ میں بطور ریسرچ سائنٹسٹ شمولیت اختیار کی اور ایٹم بم کی تیاری میں حائل بنیادی تکنیکی مسائل اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دور رس اثرات کے بارے میں گہرا مطالعہ کیا، جس میں جے رابرٹ کا مقالہ ’فرسٹ ایکسپلوسز ڈیوائس‘ بھی شامل تھا۔

1974 میں وطن واپسی کے بعد انھوں نے دوبارہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں شمولیت اختیار کی اور سائنسدانوں کی ٹیم کی معاونت کی، اس ٹیم نے 1977 میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی اور بالآخر 1982 میں ڈاکٹر منیر احمد خان کی سرکردگی میں پی اے ای سی نے پہلی ڈیوائس تیار کی، جس کا کولڈ ٹیسٹ مئی 1983 میں کیا گیا۔

انھیں ورلڈ اکیڈیمی آف سائنسز، اسلامک اکیڈمی اور رائل سوسائٹی آف لندن کی فیلوشپ کا اعزاز حاصل تھا، ڈاکٹر ریاض الدین کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان نےانھیں 2 دفعہ ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری

ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو پاکستان کا 'فادر آف نیوکلیئر فزکس‘ کہا جاتا ہے، ان کا شمار ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر رفیع کو کیمبرج یونیورسٹی سے مایہ ناز ماہر طبیعات ’ردر فورڈ‘ کی سپروژن میں پی ایچ ڈی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جب کہ ممتاز سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند اُن کے شاگرد رہ چکے ہیں۔

قیام ِپاکستان کے وقت پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر رفیع سے درخواست کی تھی کہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ فزکس کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہیں، مگر اس محب وطن سائنسدان نے قائداعظم کی دعوت پرلبیک کہا اور گورنمنٹ کالج لاہور جوائن کرکے وہاں ہائی ٹینشن لیبارٹری قائم کی، اس ادارے نے مستقبل میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں مرکزی کردار ادا کیا۔

1960 میں ڈاکٹر رفیع نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں شمولیت اختیار کی اور انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر مقرر کیے گئے، انھوں نے حساس نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر 42 ریسرچ پیپر تصنیف کیے اور ان کی سرکردگی میں پی اے آر آر ون ری ایکٹر قائم کیا گیا۔

اسی دوران انھیں ریڈی ایشن فزکسٹ ڈویژن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، جہاں تابکار مادوں پر مزید تحقیقات کے لیے ان کی کوششوں سے پی اے آر آر ٹو ری ایکٹر کا قیام ممکن ہوا۔

ان کے 9 بچوں میں سے سب نے فزکس کا شعبہ اختیار کیا اور فی الوقت معروف بین الاقوامی سائنسی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں، حکومت ِپاکستان نے ڈاکٹر رفیع کی خدمات پر انھیں ہلال امتیاز، نشان امتیاز، ستارہ امتیاز اور ستارہ خدمت سے نوازا۔

سلطان بشیر محمود

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

1940 میں امرتسر میں جنم لینے والے سلطان بشیر الدین محمود کی شخصیت اگرچہ کئی حوالوں سے متنازع رہی, مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں ان کی قابل قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انھوں نے 1960 میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں شمولیت اختیار کی اور ڈاکٹر منیر احمد خان کے ساتھ خدمات سر انجام دینے کے علاوہ کینپ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں نیوکلیئر انجینئر کے طور پر بھی کام کیا۔

بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر منیر نے انھیں یورینیم انرچمنٹ ڈویژن کا ڈائریکٹر مقرر کیا، مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ شدید اختلافات کے بعد انھیں برطرف کرکے دوبارہ کینپ پاور پلانٹ بھیج دیا گیا۔

1980 میں سلطان بشیر محمود کو خوشاب ون پاور پلانٹ پراجیکٹ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، جہاں انھوں نے پلانٹ کا کولنٹ سسٹم بنانے میں بھی معاونت کی، وہ ایک برس تک نیوکلیئر پاور ڈویژن کے سربراہ رہے۔

یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کیسے کام کرتا ہے؟

مگر سن 2000 میں انٹیلی جنس ایجنسیز نے ان کی طالبان کے ساتھ غیرقانونی سرگرمیاں نوٹ کرتے ہوئے ان پر امریکا میں دہشت گردی کے حملے میں سہولت کار ہونے کا الزام عائد کیا، مگر بشیر محمود کا القاعدہ یا اسامہ بن لادن سے کوئی گہرا تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔

تب سے یہ نامور سائنسدان اسلام آباد میں انتہائی خاموش زندگی بسر کرتے ہوئے اسلام اور سائنس پر کتابیں تحریر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ

ڈاکٹر تسنیم شاہ کا شمار کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز سے منسلک ان چنیدہ سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے یورینیم افزودگی اور گیس سینٹری فیوجز کی تیاری میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر جی ڈی عالم کی کافی عرصے تک معاونت کی۔

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے میتھمیٹکس میں ماسٹرز کے بعد ڈاکٹر تسنیم شاہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن لے کر گئے، جہاں وہ کافی عرصے تک ڈاکٹر ریاض الدین کے ساتھ کام کرتی رہیں۔

1975 میں ڈاکٹر تسنیم شاہ نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا گیس سینٹری فیوجز سے متعلق خفیہ پراجیکٹ جوائن کرتے ہوئے فلوڈ ڈائنامکس ڈویژن قائم کیا، تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں حائل پیچیدہ حسابی ماڈلز کو حل کیا جاسکے۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں بھی معاونت کی اور غوری میزائل سیریز کے تھرمل سسٹم کو بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا، راکٹ سائنسز پران کی تحقیقات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔

ڈاکٹر تسنیم نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ڈپارٹمنٹ آف کرپٹالوجی کے قیام کے علاوہ پاکستان کی پہلی پرائیوٹ سیکٹر آئی ٹی یونیورسٹی بھی قائم کی، ان کی خدمات کے بدلے حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز، تمغہ امتیاز اور چاغی میڈل سے نوازا۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ کو 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت سائنسدانوں کی ٹیم میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

ڈاکٹر انور علی

ڈاکٹر انور علی 1943 کو ضلع ہوشیارپور (برٹش انڈیا ) میں پیدا ہوئے، ان کا شمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر منیر احمد خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔

مانچسٹر یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں ماسٹرز کے بعد وہ اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ اس دوران بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکا کردیا، ڈاکٹر انور اپنا پی ایچ ڈی ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آئے اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں نیوکلیئر انجینئرنگ ڈویژن سے منسلک ہوگئے، جہاں ڈائریکٹر سلطان بشیر محمود کی یورینیم افزودگی میں معاونت کرتے رہے۔

1978 میں انور علی، ڈاکٹر جی ڈی عالم کی سربراہی میں یورینیم کے آئسوٹوپس علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس نے پہلی ایٹمی ڈیوائس بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، پی اے ای سی ٹرانسفر کے بعد ڈاکٹر انور علی 1985 میں میزائل پروگرام سے منسلک ہوئے اور میزائل سسٹم کی الیکٹرانک پروٹیکشن ڈیوائس تیار کی۔

وہ مسلسل 3 برس تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چئیرمین رہے اور نیشنل ڈیفنس کمپلیکس کے قیام میں دیگر سائنسدانوں کی مدد بھی کی، ان کے 50 سے زائد ریسرچ پیرز پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی، جو وہ وطن کی محبت میں ادھورا چھوڑ آئے تھے۔

ڈاکٹر غلام دستگیر عالم

ڈاکٹر غلام دستگیر عالم 1937 کو ہریانہ ( برٹش انڈیا ) میں پیدا ہوئے, ان کی ذہانت اور کارکردگی کو سراہتے ہوئے انھیں ڈاکٹر منیر احمد خان نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ذہین ترین دماغ قرار دیا, جس کے لیے بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرنا کبھی مشکل نہ رہا تھا۔

وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کے شاگرد بھی رہے، ڈاکٹر عالم یونیورسٹی آف لندن سے کوانٹم فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس سے منسلک ہوئے اور اس دوران متعدد قابل ذکر ریسرچ پیپر بھی تحریر کیے جو مؤقر سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔

1970 کے اوائل میں وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عالم نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز میں شمولیت اختیار کی اور تھوریٹیکل فزکسٹ گروپ کی معاونت کرتے ہوئے یورینیم آئسوٹوپس کو الگ کرنے کی مشین بنائی۔

ان کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ شدید اختلافات رہے، جس کے باعث وہ پی اے ای سی میں ڈاکٹر تسنیم شاہ کی ٹیم میں شامل ہوگئے، جو اُس وقت گیس سینٹری فیوجز پر تحقیقات میں مصروف تھیں۔ آپس کے شدید اختلافات کے باوجود ان نامور سائنسدانوں کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انھوں نے ملکی سالمیت پر کسی طور کوئی سمجھوتہ گوارا نہیں کیا اور 10 برس کی ریکارڈ مدت میں وہ کارنامے سرانجام دیے جو محدود وسائل اور ناکافی تکنیکی سہولیات کے باعث بظاہر ناممکن نظر آتے تھے اور ان میں ڈاکٹر جی ڈی عالم نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔

وہ کافی عرصے تک قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے، حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عالم کو ہلال امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر ثمر مبارک مند

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ڈاکٹر ثمر مبارک مند 1941 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے, انھیں دوران تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔

ڈاکٹر ثمر مبارک نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کیا اور وطن واپس لوٹ کر پی اے ای سی میں شمولیت اختیار کی, اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے بھی وابستہ رہے۔

انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں بھی ایک مؤثر کردار ادا کیا, ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’نیس کوم‘ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن کا قیام ہے، جس نے پاکستان ڈیفنس اور میزائل پروگرام کے خدوخال تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

ایٹمی پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے انھیں ڈاکٹر منیر احمد خان نے فاسٹ نیوٹران فزیکل گروپ کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا، ڈاکٹر ثمر مبارک نے 1998 کے ایٹمی دھماکے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور کافی عرصے چاغی میں مقیم رہ کر ٹنل کی کھدائی کی ازخود نگرانی کی۔

وہ چاغی ون دھماکا کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ تھے، جب کہ چاغی ٹو کی سربراہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی، وہ تھرکول مائننگ پراجیکٹ سے بھی وابستہ رہے، ڈاکٹر ثمر کی گراں قدر خدمات کے بدلے میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز، ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

ڈاکٹر اشفاق احمد

3 نومبر 1930 کو ضلع گورداسپور (برٹش انڈیا) میں پیدا ہونے والے مایہ ناز سائنسدان اور ماہر طبیعات ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کی سپر ویژن میں نیوکلیئر فزکس پر ماسٹرز تھیسس لکھ کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔

کچھ عرصے تک نیل بوہر انسٹی ٹیوٹ اور دیگر مغربی اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد ڈاکٹر اشفاق احمد یوریپن آرگنائزیشن آف نیوکلیئر ریسرچ (سرن) میں سینئر ریسرچ سائنٹسٹ کے طور پر بھی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔

انہوں نے 1970 میں وطن واپسی کے بعد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز میں شمولیت اختیار کی اور ایٹم بم کی ڈیزائننگ میں معاونت کی، وہ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے زبردست حامی تھے، انہوں نے صنعتی مقاصد کے لیے حکومت پاکستان کے ایٹمی توانائی مشن میں بھی اہم ذمہ داریاں سر انجام دیں۔

نوے کی دہائی میں ان کی شب وروز کی کاوشوں سے یورپین ایسوسی ایشن سرن اور پی اے ای سی کے قریبی تعلقات قائم ہوئے اور 1997 میں انھوں نے سرن کے ساتھ پارٹیکل فزکس ڈیٹیکٹر کی اَپ گریڈیشن کا معاہدہ کیا۔

1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت وہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ٹیم کا حصہ تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے باعث بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کی شرح جیسے مسائل کو حل کرنے میں سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے گلوبل امپیکٹ چینجز اور سینٹر آف ارتھ کوئک قائم کیے، جو نیشنل سینٹر آف فزکس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے انھیں 3 اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا۔

ڈاکٹر انصار پرویز

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

صوبہ پنجاب میں جنم لینے والے ڈاکٹر انصار پرویز نے پاکستان میں نیوکلیئر انجینئرنگ کی فیلڈ میں تعلیم و تحقیق کے علاوہ ایٹمی پروگرام میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا۔

ان کی شب و روز کی کاوشوں سے متعدد نیوکلیئر پاور پلانٹس قائم ہوئے، جن میں کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ، نیوکلیئر میڈیسن اور کینسر ریسرچ سینٹر قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر انصار نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے نیوکلیئر فزکس میں ماسٹرز کے بعد امریکا سے اسی فیلڈ میں پی ایچ ڈی کیا، وطن واپسی کے بعد انہوں نے پی اے ای سی میں شمولیت اختیار کی اور نیوکلیئر سیفٹی گروپ میں ساتھی سائنسدانوں کی معاونت کرتے رہے۔

کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ کراچی پاور پلانٹ کر دیا گیا، وہ پر امن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے زبردست حامی تھے اور حکومتی عہدیداران اور معروف سائنسدانوں کو نئے پاور پلانٹس کی تعمیر پر قائل کرتے رہے۔

2009 میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر انصار کو پاور پلانٹس پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا، تاکہ پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایاجاسکے، ان کی کوششوں سے چشمہ نیوکلیئر پلانٹ قائم ہوا اور نیوکلیئر ری ایکٹر فزکس میں قابل قدر تحقیقات ممکن ہوئیں۔

ان کی خدمات کے بدلے میں حکومت پاکستان نے انھیں 1995 میں ہلال امتیاز سے نوازا۔


صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں اور اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔ سائنس اور سائنس فکشن ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔