پاکستان میں اِس وقت صرف وفاقی حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی اپنی ہی دشمن بنی ہوئی ہے۔ عام آدمی کا درد تو پہلے ہی کسی کو نہیں تھا، اب ایسی حالت میں تو اِس کا خیال بھی درکنار ہے۔

حال تو یہ ہے کہ حکومت و اپوزیشن کا ہاتھ مستقل ایک دوسرے کی داڑھی میں ہے، اپوزیشن خود سے فارغ ہو تو حکومت کی داڑھی پکڑ لیتی ہے، اور اپوزیشن حکومت کی داڑھی چھوڑے تو حکومت خود اپنی داڑھی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے، ایسی صورت میں تو بہرحال پاکستانی عوام کو یہی مشورہ، بلکہ گزارش ہے کہ اپنی ضروریات کا بندوبست خود ہی کرے، کیونکہ جن کی یہ ذمہ داری ہے وہ آج کل کچھ اور ہی کرنے میں مصروف ہیں۔

ویسے تو پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حکومتوں کو کمزور کرنے کی ذمہ داری اپوزیشن اپنے ذمے لیا کرتی تھی، لیکن پاکستان میں ایسا تو پہلی بار ہوا ہے کہ موجودہ حکومت خود، اپنے آپ کو کمزور کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ اگر آپ کو اِس حکومت کی کمزوری کا اندازہ لگانا ہو تو کسی دن پارلیمنٹ چلے آئیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کی حکومت اور آپ کے حلقے کے رکن اسمبلی آپ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اراکینِ اسمبلی کی اکثریت اسلام آباد میں ہونے کے باوجود بھی اسمبلی اجلاس میں شرکت کو اپنے لیے توہین سمجھتی ہے، حالانکہ یہی نمائندے اپنے حلقے میں محض اِس بہانے سے نہیں جاتے کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں مصروف رہتے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ یہ لوگ حاضری لگاتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں، اعتبار نہ آئے تو ستمبر کے دوران اجلاسوں کی حاضری اُٹھاکر دیکھ لیجیے اور پھر اُن دنوں کے اخبارات دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کتنی بار کورم ٹوٹا اور کتنی بار اجلاس ملتوی ہوا۔ اب تو وزراء کی ایک بڑی فوج موجود ہے لیکن اب وہ بھی اسمبلی نہیں آتے۔ اب تو اسپیکر کی برداشت بھی جواب دے چکی، حتیٰ کہ وزراء ارکان کے سوالات کے جواب تک نہیں دیتے۔ نئے وزیر اعظم تو بے چارے ہیں، اُنہیں تو اُن کے اپنے وزیر خارجہ بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف نااہل کیا ہوئے اُن کے بعد تو اُن کی حکومت نے اہلیت بھی کھودی۔

ویسے سارا ملبہ ارکان پر کیوں ڈالا جائے؟ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو چار سال تک انہوں نے بھی اِس ایوان کو کوئی عزت نہیں بخشی، ہاں اُن کے وزیراعظم ہونے کا بہرحال یہ فائدہ ضرور تھا کہ اُس وقت 189 نشستیں رکھنے والی ن لیگ کے 70، 60 ارکان حاضری لگانے آ ہی جاتے تھے۔

اگر گزشتہ اجلاس میں ارکان کی حاضری کا جائزہ لیا جائے تو اِسے دیکھ کر ہمیں حیرانی ہوتی ہے، کیونکہ 9 دن اجلاس چلا اور 5 دن کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی کو معطل یا اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا۔ حکومت ایوان میں اکثریت رکھنے کے باوجود اطلاعات تک رسائی کا بل پاس نہ کرواسکی، اور ایک آدھ بل پاس کروانے کے لیے اُسے اپوزیشن سے معاہدہ کرنا پڑا۔

ایسا ہرگز نہیں کہ حکومت بہت بُری اور اپوزیشن کو عوام کی ترجمانی کا جنون ہے، نہیں جناب بلکہ غیر حاضری کے معاملے میں تو عمران خان میاں نواز شریف سے بھی نمبر لے گئے۔ وہ جس اسمبلی کو جعلی کہتے ہوئے اُس میں آنے کو تیار نہیں، اُسی اسمبلی سے تنخواہ پوری لیتے ہیں، لیکن جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے۔

خورشید شاہ چار سال سے اپوزیشن لیڈر ہیں، دھرنے کے دنوں میں پی ٹی آئی مستعفی ہوئی تو اُنہیں بہلا پھسلا کر ایوان میں لے آئے، استعفے واپس کروائے۔ ایم کیو ایم نے بھی استعفے دیے تو اُنہیں بھی منت سماجت کرکے ایوان میں لے آئے، تاکہ کوئی بحران پیدا نہ ہو اور سسٹم چلتا رہے۔ لیکن مزے کی بات دیکھیے کہ اب یہی دونوں جماعتیں خورشید شاہ سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ واپس لینا چاہتی ہیں۔

تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ نومبر میں نئے چیئرمین نیب کے تقرر میں اُس کا براہِ راست کردار ہو، کیونکہ آئینی طور پر چیئرمین نیب اور نگران وزیراعظم کی تقرری قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوتی ہے۔ پچھلی بار موجودہ چیئرمین نیب کا تقرر یا اُس سے پہلے نگران کھوسہ حکومت کے تقرر پر عمران خان کو شدید تحفظات تھے، لیکن اب وہ خود یہ اختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا ہو بھی سکے گا یا نہیں؟

آج کل اقتدار کی راہداریوں میں یہی کچھ زیرِ بحث ہے۔ اِس پورے معاملے میں حکومت کی خاموشی کا سبب سمجھ میں آتا ہے۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ وہ پسِ پردہ سید خورشید شاہ کی مدد کرے گی، کیونکہ یہی وہ خورشید شاہ ہیں جنہوں نے دھرنے کے دنوں میں اُن کی حکومت کو گرنے سے بچایا تھا۔

نیا قانون

اِس پورے کھیل میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کو قائد حزب اختلاف کا عہدہ سونپ سکتا تھا اور ماضی قریب میں ایسا ہوا بھی، جب مشرف دور میں پیپلزپارٹی کے پاس اکثریت ہونے کے باوجود یہ عہدہ مولانا فضل الرحمان کو دے دیا گیا تھا، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط میں ترمیم کے بعد اپوزیشن لیڈر کی تقرری کا طریقہ تبدیل کردیا گیا۔

نئے طریقے کے مطابق اپوزیشن لیڈر کی نشست کا خواہشمند اُمیدوار اسپیکر قومی اسمبلی کو درخواست دے گا، جس میں اپنے حامی اُمیدواروں کے دستخط کے ساتھ وہ گزارش کرے گا کہ اِس وقت قومی اسمبلی میں اُن کے پاس اپوزیشن ارکان کی اکثریت ہے لہٰذا اُنہیں یہ عہدہ دیا جائے۔

قومی اسمبلی کے ایک ذمہ دار افسر کے مطابق جب درخواست آجائے گی تو حمایت کرنے والے تمام ارکان سے فرداً فرداً اُن کے دستخط کی روبرو تصدیق کی جائے گی، جب تصدیق کا عمل مکمل کرلیا جائے گا اور اکثریت ثابت ہوجائے گی تو اسپیکر قومی اسمبلی اِس کا اعلان کردیں گے۔

نمبر گیم کا کھیل

اِس وقت پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ایسے کوئی 10 ارکان ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں سے ناراض ہیں، یہی وجہ ہے کہ اِس بات کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے جو کھیل شروع کیا ہے اُس میں وہ کامیاب ہو پائے گی۔

اِس وقت قومی اسمبلی میں 125 کے لگ بھگ ارکان اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔ اِن میں سے تحریک انصاف کے چار باغی ارکان نکال دیے جائیں تو یہ تعداد 121 کے قریب پہنچتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کی اپنی 32 نشستیں ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کے پاس 24 نشستیں ہیں۔ اِسی طرح اِن کی دو حامی جماعتیں اور دو آزاد ارکان، شیخ رشید، عامر ڈوگر، جمشید دستی اور عوامی جمہوری اتحاد کے عثمان خان ترکئی، شامل ہیں۔

اِن 60 میں سے چار پی ٹی آئی اور 6 ایم کیو ایم کے نکال دیے جائیں تو باقی 50 بچتے ہیں۔ اِن 10 میں سے مسرت زیب، ناصر خٹک ،سراج محمد خان اور عائشہ گلالئی پی ٹی آئی کے باغی ارکان ہیں۔ اِسی طرح ایم کیو ایم کے آصف حسنین، پاک سر زمین پارٹی میں چلے گئے ہیں جبکہ سفیان یوسف کو ایم کیو ایم لندن کے ساتھ رابطوں کے الزام میں معطل کیا جاچکا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اِسی طرح ایم کیو ایم کے دیگر 4 سے 6 ارکان ایسے ہیں جو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اِس لیے اگر کم سے کم 10 ارکان بھی نکال دیے جائیں تو بھی پی ٹی آئی کے لیے کامیابی کافی کٹھن ہوگی۔

دوسری طرف خورشید شاہ کو پیپلز پارٹی کے اپنے 47، اے این پی کے 2 ووٹ، بی این پی، قومی وطن پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک ایک ووٹ حاصل ہوگا۔ یہ تعداد 52 بنتی ہے۔

اب رہ گئی مسلم لیگ ق، جس کے اپنے 2 اور ایک آزاد امیدوار زین الہٰی بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے 4 اور فاٹا کے 6 ارکان بچتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ 13 ارکان ہیں جو انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں اور یہ ووٹ جس طرف بھی جائیں گے صورتحال اُن کے حق میں جانے کی اُمید ہے۔

پیپلز پارٹی کی حمایت کے لیے وفاقی حکومت اور جے یو آئی ایف اور محمود خان اچکزئی، فاٹا امیدواروں کو راضی کرنے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں، جبکہ تحریک انصاف کی پختونخواہ میں حکومت ہونے کے باعث فاٹا ارکان کے مالی اور سیاسی مفادات اِس طرف بھی ہوسکتے ہیں۔

ماضی میں تو یہ حقیقت تھی کہ حکومتیں بنانے کے لیے فاٹا ارکان کا کردار اہم ہوا کرتا تھا لیکن شاید یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں بھی اِن کی اہمیت فیصلہ کن بنتی جارہی ہے۔

نتیجہ بہرحال کچھ بھی نکلے، لیکن اِس پوری صورتحال میں اچھی بات یہ ہے کہ جس پارلیمنٹ کو گزشتہ ساڑھے چار سال میں اتنی اہمیت نہیں ملی وہ اِسے اب مل رہی ہے۔ اُمید یہی کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں ہاؤس فل ہوگا اور تمام جماعتیں چاہے اپنے مفادات کی خاطر ہی سہی لیکن محنت کرتی نظر آئیں گی۔ باقی رہی عوام تو اوپر بھی یہ مشورہ دیا جاچکا ہے کہ بہتر ہے وہ اپنی ضروریات کا بندوبست خود ہی کرلیں، کیونکہ اگر اِن ارکان کے آسرے میں رہے تو نقصان انہی کا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

راجہ رضوان Sep 28, 2017 09:34pm
کھٹی صاحب درست کہا آپ نے ، ہمارے نمائیندے جب مشکل میں ہوتے ہیں تبھی انہیں پارلیمنٹ یاد آتی ہے ،
Ali Sep 28, 2017 11:30pm
Salary sould be base on complete scorecard like attendance, introduction of new laws, debate particpation etc.
انتظار حیدری Sep 29, 2017 09:34am
کٹھی صاحب.. اعلی.... لیکن حقیقت یه هے که پی ٹی آئی کے چیئرمین نے جذباتی پن کی وجه سے امید نهیں هے که وه اس کھیل میں کامیاب هوپائے گی... رهی بات عوام کی تو جناب عوام کی کب کسے پرواه رهی پی پی هو یا ن لیگ یا پی ٹی ائی
راناابرارخالد Sep 29, 2017 10:53pm
شاندارلکھت ہے، لیکن کہیں ایساتونہیں کہ سیدخورشیدشاہ سے کوئی ناپسندیدہ کام کروانے کیلئے ان کودبائومیں لایاجارہاہو؟