جہلم میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی دو طالبات کو خودکشی کے لیے ابھارنے والی خطرناک گیم 'بلیو وہیل' کھیلنے پر خارج کردیا گیا۔

پنڈ دادنخان میں واقع گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ گیارھویں اور بارھویں جماعت کی دو طالبات کو بلیو وہیل کھیلتے ہوئے پایا گیا تھا جنھیں کالج سے خارج کردیا گیا ہے۔

پنڈدادنخان کے کالج کی طالبات نے بازووں پر زخم بھی لگائے—فوٹو:عامرکیانی
پنڈدادنخان کے کالج کی طالبات نے بازووں پر زخم بھی لگائے—فوٹو:عامرکیانی

خیال رہے کہ بلیو وہیل پوری دینا میں ایک خطرناک گیم کے طور پر ابھری ہے جس میں حصہ لینے والے کئی نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ اس گیم کے دوران خود پر تشدد یہاں تک کہ خودکشی کے لیے ابھارا اور دھمکایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:خطرناک ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ سے متعلق اہم حقائق

کالج کی پرنسپل راحیلہ چاندنی نے طالبات کے والدین سے ملاقات میں صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ ایک تیسری طالبہ نے انھیں بلیووہیل گیم کھیلنے سے باخبر کیا۔

راحیلہ چاندنی کا کہنا تھا کہ انھوں نے طالبات کو ان کے والدین سے گفتگو کے بعد خارج کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس وبا سے 'کالج کی دیگر طالبات کو بچایا جاسکے'۔

گیم کھیلنے والی طالبات نے تیز دھار آلے سے اپنے بازووں پر نشانات بناچکی ہیں جبکہ ایک طالبہ گیم کے 18 ویں لیول اور دوسری 22 ویں لیول پر کھیل رہی تھیں۔

ویڈیو گیم ’بلیو وہیل‘ سے متعلق اہم حقائق

’بلیو وہیل‘ نامی گیم جسے ’بلیو وہیل چیلنج‘ اور ’ڈیتھ گروپ‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کے متعلق سب سے پہلے روسی نشریاتی ادارے ’نووایا گزیتا‘ نے ایک کالم شائع کیا تھا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک ویڈیو گیم کی وجہ سے روس بھر میں 130 کم عمر بچوں کی اموات رپورٹ کی گئی ہیں۔

اس گیم سے متعلق اسی ادارے نے مئی 2016 میں پہلی بار اعداد و شمار کے ساتھ فیچر شائع کیا۔

اگلے ہی چند روز میں روس کے معروف نشریاتی ادارے ’آر ٹی‘ ٹی وی چینل نے مئی 2016 میں اس گیم سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ نشر کی۔

آر ٹی کی خبر میں ’بلیو وہیل چیلنج‘ گیم سے متعلق بتایا گیا کہ اس گیم کا حصہ بننے والے افراد کو مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں،جن میں خوفناک ویڈیوز دیکھنا، خوفناک کارنامے سر انجام دینا بھی شامل ہے۔

’بلیو وہیل چیلنج‘ گیم کے نئے ورژن کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے، جس سے نہ صرف ’وی کے‘ جیسی سوشل ویب سائٹس بلکہ دیگر عالمی سوشل اینڈ میسیجنگ ایپلی کیشنز جن میں واٹس ایپ، فیس بک اور میسیجر شامل ہیں ان کے ذریعے ان کم عمر افراد تک پھیلایا گیا، جو ڈپریشن، پریشانی اور ںاخوش زندگی گزار رہے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Saba Qayoom Leghari Oct 01, 2017 12:11pm
I do not agree with the decision of college. Because I believe that the role of a good teacher must be ‎to educate the student's mind in such a way, that they must avoid from such activities. Instead of ‎giving those harsh punish specially by terminating them.‎ The college authority must remember the fact that the guy who designed this game was also once ‎terminated. So in turn his aggression was increased instead of feeling shame.‎ And also there is a chance that the college might get more curious about this game after their ‎termination. Terminating them does not mean that they would not have excess to college girls any ‎more. ‎ Excuse me! This is 2017 and nowadays people specially teenagers have numerous contacts online than ‎offline.‎ Is college authority also able to stop their excess to their friends through social networks and ‎phone??????‎ Than what their decision is about?????‎