واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کی گئی نئی افغان پالیسی میں پاکستان پر دہشت گردوں کے ساتھ روابط کے الزامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے رواں ماہ پاکستان اور امریکا کے اعلیٰ سرکاری عہدریداران ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کریں گے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال آئندہ ہفتے 11 اکتوبر کو واشنگٹن کے لیے روانہ ہوں گے جہاں وہ امریکا کی اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقات کریں گے۔

وزیرِ داخلہ کے دورہ واشنگٹن کے بعد امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن رواں ماہ اکتوبر کے آخر میں پاکستان کا دورہ کریں گے جبکہ امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس آئندہ ماہ نومبر میں اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

خواجہ آصف نے اپنے دورے کے دوران امریکا پر دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد پر تبدیلی کا دباؤ کام نہیں کرے گا، تاہم اس بیان کی وجہ سے جہاں انہیں پزیرائی حاصل ہوئی وہیں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: دہشت گردوں کے تحفظ کا الزام، خواجہ آصف امریکا پر برس پڑے

جیمز میٹس نے چند روز قبل واشنگٹن میں کانگریس پینل کو بتایا کہ سیکریٹری اور نیشنل سیکیورٹی اسٹاف پر مشتمل دو امریکی وفود جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے جہاں پاکستان کو افغان جنگ جیتنے کے لیے امریکی کوششوں میں شامل کرنے پر بات چیت کی جائے گی۔

جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے تاہم ان کی ناکامی کی صورت میں امریکا کے پاس بڑی تعداد میں طاقت ور آپشن موجود ہیں۔

خیال رہے کہ پاک امریکا تعلقات میں جاری کشیدگی گزشتہ ماہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ملاقات سے کم ہونا شروع ہوئی۔

ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے پاک امریکا تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ واشنگٹن عمل میں آیا، تاہم اس دورے کے نتائج کے بارے میں اب تک آگاہ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا ہمارا قابل اعتبار دوست نہیں، خواجہ آصف

اپنے دورے کے آخری روز واشنگٹن میں موجود امریکی ادارہ برائے امن (یو ایس آئی پی) سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ریکس ٹلرسن کے ساتھ ان کی ملاقات بہت اچھی رہی تاہم امریکی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے ان تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔

خیال رہے کہ رواں ماہ اگست میں امریکی صدر کی جانب سے جنوبی ایشیا کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کی موجودگی کا الزام لگایا تھا جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا، تاہم اس کے بعد پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی آگئی تھی۔

اسلام آباد کے سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی صدر نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم نہ کرنے اور اپنی پالیسی کو تبدیل نہ کرنے پر پاکستان کو فوجی اور معاشی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

امریکی ذرائع ابلاغ میں جاری خبروں کے مطابق امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نرم انداز میں اسلام آباد جائیں گے جبکہ سیکریٹری دفاع جیمز میٹس پاکستانی حکام پر یہ بات واضح کریں گے کہ موجودہ پالیسی جاری رکھنے کی وجہ سے پاکستان کو منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان میں سول حکومت کے مستقبل پر خدشات کا اظہار

جیمز میٹس نے کانگریس پینل کو بتایا تھا کہ امریکا پاکستان کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے اگر اس میں بھی پاکستان ناکام ہوتا ہے تو واشنگٹن اسلام آباد کے خلاف سخت اقدامات اٹھا سکتا ہے جس میں پاکستان پر پابندیاں، ڈرون حملوں میں اضافہ اور پاکستان کی اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کا خاتمہ شامل ہے۔

کانگریس پینل کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان سفارتی سطح پر تنہا رہ جائے گا اور دہشت گردی سے تباہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہوگا اس لیے پاکستان کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم پاکستانی وزیر خارجہ نے یو ایس آئی پی کو بتایا کہ ان کے دورہ واشنگٹن کے دوران بات چیت کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جبکہ انہوں نے پاکستان پر امریکی الزامات کو ’کھوکھلے الزامات‘ کہتے ہوئے مسترد کردیا۔

خواجہ آصف نے تلخ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اپنے 70 سالہ پرانے دوست سے بات کرنے کا طریقہ نہیں ہے کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ یہ آپ کا آخری موقع ہے تو ہم اسے قبول نہیں کرتے اور نہ ہی پہلا موقع، دوسرا موقع، آخری موقع پاکستان کے لیے قابلِ قبول ہے ہم عزت و احترام کے ساتھ امور کو چلانا چاہتے ہیں۔


یہ خبر 8 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں