اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مالٹا میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے ہوائی جہاز کی فروخت کا نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ایوی ایشن ڈویژن کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پی آئی اے کا طیارہ مالٹا اور جرمنی بھجوائے جانے سے ملک کی بدنامی ہوئی، یہ بتایا جائے کہ پی آئی اے کا ایک جہاز جرمنی کیسے پہنچ گیا، نیب تحقیقات کر کے کمیٹی کو بتائے کہ پی آئی اے کے سابق جرمن چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے کس نے اور کس کے کہنے پر نکالا۔

چیئرمین سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کا جہاز پہلے مالٹا کی ایک فلم ساز کمپنی نے 2 لاکھ 10 ہزار ڈالر میں حاصل کیا، جہاز مالٹا سے سیدھا جرمنی کے میوزیم لے جایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے جس غیر ملکی مشیر نے یہ سودہ طے کیا وہ اسی کمپنی کا ملازم تھا جسے فروخت کیا گیا۔

اس موقع پر خورشید شاہ نے کہا کہ اگر ایف آئی اے اور دوسرے ادارے کچھ نہیں کر رہے تو ہم تو زندہ ہیں، پی آئی اے کا جہاز مالٹا سے دوسرے ملک براہ راست کیسے لے جایا گیا۔

کمیٹی نے پی آئی اے کے اعلیٰ افسران کے ایک سال کے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

نیو اسلام آباد ایئرپورٹ میں مسافروں کے لیے 15 پلوں کی تعمیر کا معاملہ بھی پی اے سی میں زیر غور آیا۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ پلوں کی تعمیر کے ٹھیکے میں 5 ارب 99 کروڑ کی بے ضابطگیاں پائی گئیں، پہلے پی سی ون کے تحت اس منصوبے پر 2 ارب 57 کروڑ روپے لاگت آنا تھی، جبکہ سول ایوی ایشن کے اپنے انجینیئرز نے منصوبے کا تخمینہ 4 ارب 77کروڑ روپے لگایا تھا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لگتا ہے معاملے میں بہت کرپشن ہوئی ہے جس کی مکمل تحقیقات ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے معاملے پر شیری رحمٰن کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دے کر رپورٹ طلب کر لی۔

تبصرے (0) بند ہیں