اتنی غلطیوں پر تو شاہین "کلین سوئپ" کے ہی مستحق ہیں!

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2017
ابھی ون ڈے اورٹی20 کے امتحانات باقی ہیں جو سرفراز احمد کے آزمودہ فارمیٹس ہیں، یہاں انہیں ٹیسٹ میں شکست کے داغ دھونے ہیں—تصویر اے پی
ابھی ون ڈے اورٹی20 کے امتحانات باقی ہیں جو سرفراز احمد کے آزمودہ فارمیٹس ہیں، یہاں انہیں ٹیسٹ میں شکست کے داغ دھونے ہیں—تصویر اے پی

ٹیسٹ کرکٹ سے طویل دوری، کھلاڑیوں کا ناقص انتخاب، 'اولڈ گارڈز' کے جانے کے بعد تجربے کی کمی، کمزور بیٹنگ لائن اور سب سے بڑھ کر چھٹی حِس، یہ سب اشارے کر رہے تھے کہ پاک-لنکا سیریز میں کچھ ہونے جا رہا ہے۔ پھر جو ہوا، وہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پاکستان صرف ہارا نہیں بلکہ بُری طرح ہارا، ابوظہبی میں ناقابلِ شکست ہونے کا اعزاز بھی کھویا، عالمی درجہء بندی میں چھٹے سے ساتویں نمبر پر بھی آگیا اور مستقبل پر ایک سوالیہ نشان بھی چھوڑ گیا۔

حیرت کی بات ہے کہ وہ سری لنکلن ٹیم جو ہوم گراؤنڈ پر بھارت کے خلاف حال ہی میں اپنے تمام میچز ہاری تھی، صرف ٹیسٹ نہیں بلکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی یوں، مسلسل 9 میچز میں شکست نے اِس کے کرکٹ سیٹ اپ کو ہلِا کر رکھ دیا تھا، سلیکشن کمیٹی کے اراکین کو استعفے دینے پڑے، لیکن وہی سری لنکن ٹیم، وہ تِتر بتر لشکر آیا اور پاکستان کو اُس کے قلعے میں ہی شکست دے گیا۔

2010 میں جب سے پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو اپنا 'نیا گھر' بنایا ہے، آسٹریلیا سے لے کر جنوبی افریقہ اور انگلینڈ سے لے کر نیوزی لینڈ تک، کوئی پاکستان کو امارات کے میدانوں پر سیریز نہیں ہرا پایا تھا، بلکہ اِس کوشش میں تو انگلینڈ کو دو مرتبہ اور آسٹریلیا کو ایک بار کلین سوئیپ کی ہزیمت بھی سہنا پڑی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سری لنکا کے خلاف سیریز میں ایسا کیا ہوا کہ پاکستان دو-صفر کی شکست سے دوچار ہوا؟

سرفراز احمد کو ہم اب تک ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے فارمیٹس میں دیکھتے آئے ہیں، لیکن ٹیسٹ صبر آزما کھیل ہے— فوٹو: اے ایف پی
سرفراز احمد کو ہم اب تک ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے فارمیٹس میں دیکھتے آئے ہیں، لیکن ٹیسٹ صبر آزما کھیل ہے— فوٹو: اے ایف پی

سب سے پہلی اور بنیادی وجہ تھی حریف کو دو مرتبہ آؤٹ کرنے کی کمزور صلاحیت۔ یہ جدید کرکٹ کا پہلا فارمولا ہے، جس پر پاکستان پچھلے کئی برسوں سے سختی سے کاربند بھی تھا، لیکن اِس سیریز میں چُوک ہوگئی۔ ہم کاغذ پر محمد عامر اور وہاب ریاض کے تجربہ کار ناموں کو دیکھ کر دھوکا کھاتے رہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان جب بھی جیتا ہے اِسی فارمولے کے تحت جیتا ہے کہ امارات میں دو ایسے اسپنرز کو کھلایا جائے جو وکٹ لینے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہوں اور دونوں اینڈز سے جارحانہ باؤلنگ کریں۔

2012 میں انگلینڈ کے خلاف تاریخی کلین سوئیپ میں جہاں سعید اجمل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، وہیں دوسرے اینڈ سے عبد الرحمٰن بھی تھے، جنہوں نے اہم مراحل پر قیمتی وکٹیں حاصل کی تھیں۔ جب 2015ء میں انگلینڈ دوبارہ کھیلنے آیا تو ایک اینڈ سے یاسر شاہ تھے تو دوسرے سے ذوالفقار بابر اور شعیب ملک نے 20 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔

پڑھیے: ٹیم میں کھلاڑیوں کی شمولیت کا فارمولہ کیا؟ کوئی تو بتائے

پھر انہی ذوالفقار بابر کے ساتھ مل کر یاسر شاہ، 2014 میں آسٹریلیا کے خلاف یادگار کامیابی میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ تو یہ بات طے شدہ ہے کہ دو 'وکٹ ٹیکرز' یا ’وکٹ کے شکاریوں’ کے بغیر کام نہیں چلے گا، وہ بھی اسپنر، لیکن پاکستان نے کیا کیا؟ 'ہاف فِٹ' یاسر شاہ کو میدان میں اتارا، جبکہ انہیں دوسرے اینڈ سے ایسی کوئی سپورٹ نہیں دی گئی۔ محمد اصغر کو لے جایا گیا تو کھلایا نہیں گیا اور یہی وجہ ہے کہ بات نہیں بنی۔

اب اِس مسئلے کو پاکستان کے ایک دوسرے بھیانک پہلو سے ملاتے ہیں۔ اِس سیریز میں جہاں باؤلرز نے اِس کمی کے باوجود آخری دم تک جان لڑائی اور دونوں مقابلوں کو اِس نہج تک پہنچایا کہ پاکستان جیت سکتا تھا لیکن دونوں بار بلے بازی ناکام ہوئی، بالخصوص ٹاپ آرڈر۔ پہلے ٹیسٹ میں جہاں پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 136 رنز کا ہدف ملا تھا، وہاں صرف 36 رنز پر پانچ وکٹیں گریں اور دوسرے مقابلے میں جہاں 317 رنز کے ٹارگٹ کا سامنا تھا، وہاں صرف 52 رنز پر آدھے کھلاڑی پویلین واپس لوٹ چکے تھے۔ یہی دونوں مرحلے تھے، جنہوں نے سیریز کا فیصلہ کیا۔

ایک ایسی ٹیم جس کے مڈل آرڈر سے تازہ بہ تازہ مصباح الحق اور یونس خان جیسے کھلاڑیوں کو نکالا گیا ہو، اُس کے لیے اوپننگ تو ویسے ہی بہت اہم ہوجاتی ہے تاکہ مڈل آرڈر پر دباؤ نہ آئے لیکن یہاں 'آؤٹ آف فارم' شان مسعود کو نوجوان سمیع اسلم کا ساتھ دیا گیا جبکہ تجربہ کار محمد حفیظ اور احمد شہزاد کو نظر انداز کردیا گیا۔

بلاشبہ احمد شہزاد کا ٹیسٹ تجربہ شان مسعود جتنا ہی ہوگا لیکن اُن کی بیٹنگ اوسط تو کافی اچھی ہے اور وہ بین الاقوامی کرکٹ کا زیادہ تجربہ بھی رکھتے تھے۔ آخری بار جب احمد شہزاد متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ کھیلے تھے تو انہوں نے 176 رنز کی اننگز کھیلی۔ پھر محمد حفیظ کو نہ جانے کس ترنگ میں طلب نہیں کیا گیا حالانکہ اُن کی موجودگی پاکستان کے لیے بہت ضروری تھی۔ بالخصوص بطور اسپنر یاسر شاہ کا ساتھ دینے کے لیے۔

پڑھیے: ناقص بیٹنگ کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، سرفراز

بلاشبہ حارث سہیل نے توقعات کے برعکس بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور کافی حد تک اپنے انتخاب کو درست ثابت بھی کیا لیکن انہیں مکمل باولر یا ماہر باولر کے طور پر نہیں کھلایا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بات نہیں بنی۔ اُن کی کارکردگی ہرگز محمد حفیظ کے تجربے کا نعم البدل نہیں ہوسکتی تھی اِس لیے 'کومبی نیشن' تو یہی بنتا ہے کہ اوپننگ میں محمد حفیظ ہوں اور مڈل آرڈر میں حارث سہیل کی جگہ فواد عالم، جنہوں نے فرسٹ کلاس میں بہترین کارکردگی کے باوجود پچھلے 8 برسوں میں ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیلا۔ آپ ہی بتائیے کہ اِس وقت پاکستان کے ڈومیسٹک سرکٹ میں 56 سے زیادہ کا بیٹنگ ایوریج اور 10 ہزار سے زیادہ رنز رکھنے والا کون سا ایسا بلے باز موجود ہے، جسے قومی ٹیم میں موقع نہیں دیا جا رہا؟ سوائے فواد عالم کے شاید اور کوئی نہیں ہوگا۔

حارث سہیل نے توقعات کے برعکس بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور کافی حد تک اپنے انتخاب کو درست ثابت بھی کیا لیکن انہیں مکمل باولر یا ماہر باولر کے طور پر نہیں کھلایا گیا تھا—تصویر اے پی
حارث سہیل نے توقعات کے برعکس بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور کافی حد تک اپنے انتخاب کو درست ثابت بھی کیا لیکن انہیں مکمل باولر یا ماہر باولر کے طور پر نہیں کھلایا گیا تھا—تصویر اے پی

باؤلنگ اور بیٹنگ کے مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ قیادت میں بھی کمی بیشی رہی۔ سرفراز احمد کو ہم اب تک ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے فارمیٹس میں دیکھتے آئے ہیں، لیکن ٹیسٹ صبر آزما کھیل ہے۔ یہاں ذرا سی جلد بازی جیتی ہوئی بازی پلٹا دیتی ہے، ویسے ہی جیسے پہلے ٹیسٹ میں ہوا۔ پاکستان ایک معمولی ہدف کا تعاقب کر رہا تھا۔ صرف 36 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد سرفراز اور حارث نے میدان سنبھال لیا تھا۔ کامیابی 58 رنز کے فاصلے پر تھی جب سرفراز نے ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیلا۔ جب سرفراز کی کریز پر موجودگی بہت ضروری تھی، وہ نہ رہے تو پاکستان کے ہاتھ سے میچ بھی گیا اور بعد میں سیریز بھی۔

بہرحال، سرفراز احمد پر زیادہ تنقید بنتی نہیں ہے۔ یہ اُن کی پہلی ٹیسٹ سیریز تھی اور ابھی انہیں بہت کچھ سیکھنا ہے بلکہ اُنہیں اِس سیریز نے بہت کچھ سکھایا بھی ہوگا۔ انہیں ضرورت ہے کھیل کے نازک مراحل پر اپنی باڈی لینگویج کو بہتر بنانے کی، ٹھنڈے دماغ کے ساتھ مثبت کھیل پیش کرنے کی اور دیگر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ابھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے امتحانات باقی ہیں اور محدود اوورز کی کرکٹ سرفراز احمد کا آزمودہ فارمیٹ ہے۔ اب یہاں انہیں ٹیسٹ میں شکست کے داغ دھونے ہیں۔

اِس شکست میں ایک سبق پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کے لیے بھی ہے کہ کسی بھی ٹیم کو ہلکا مت لیں، چاہے وہ 0-9 سے ہار کر کیوں نہ آرہی ہو۔ ورنہ انجام وہ بھی ہوسکتا ہے جو سری لنکا کرکٹ کی سلیکشن کمیٹی کا ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ریحان علی Oct 11, 2017 04:28pm
ان تمام نقائص کی ذمہ داری انضمام الحق صاحب کی چودہراہٹ پر منتج ہوتی ہے جن کو کھلاڑیوں کے چنائو کا اختیار حاصل تھا۔ انکا انجام سری لنکن ہم منصب جیسا ہرگز نہیں ہوگا۔ پاکستان میں یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ یہ ایک معمول ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کوئی معنی نہیں رکھتی بس سلیکٹر صاحب کی نظرِ کرم ہونی چاہئیے اور یہ فارمولا کار آمد بھی ہے حارث سہیل اس کی زندہ اور موجودہ مثال ہیں۔