پورے پاکستان اور بالخصوص کراچی میں گھروں میں صفائی ستھرائی، کھانا پکانے اور گھر کے بزرگوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازموں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اِس کے لیے اکثر ایسے علاقوں میں بسنے والے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، جن کی ماہانہ آمدن انتہائی کم ہو، وہ تعلیم یافتہ نہ ہوں جبکہ ملک کے لیبر قوانین اور اُن کے حقوق کے بارے میں بھی نہ جانتے ہوں۔

ایسا ہی کراچی کے پوش علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے، جہاں تقریباً ہر دوسرے گھر میں خواتین بطور ملازمہ کام کرتی ہیں جبکہ اُن کے لیے ایک مخصوص اصطلاح ’ماسی‘ استعمال کی جاتی ہے، جو کم از کم مجھے سننے میں معیوب لگتی ہے لیکن چند پیسوں کی خاطر یہ لفظ بھی شہزادی سنائی دیتا ہے۔

کراچی کے علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون زرینہ بی بی* ماہانہ اجرت پر لوگوں کے گھروں میں بطور ملازمہ کام کرتی ہیں۔ جب اُن سے پوچھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتی ہیں تو انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کام میں عزت نام کی کوئی چیز نہیں، اور نہ ہی اِس میں بڑے چھوٹے کا کوئی احترام ہے لیکن ہمیں اپنے گھر والوں اور بچوں کی کفالت کے لیے مجبوراً یہ کام کرنا پڑتا ہے۔‘

پڑھیے: 'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں'

میں نے صرف ملیر کے علاقے کھوکھراپار میں کراچی کے مختلف علاقوں میں جاکر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو حیران کن طور پر معلوم ہوا کہ صرف اِس علاقے سے صبح کے اوقات میں تقریباً 30 سے زائد پِک اپ گاڑیاں خواتین کو لے کر شہر کے مختلف پوش علاقوں کی جانب روانہ ہوتی ہیں، جن میں تقریباً ہر عمر کی خواتین شامل ہوتی ہیں۔

ایسی ہی ایک خاتون زرینہ بی بی کہتی ہیں کہ اُن کی ڈیوٹی عام طور پر 8 سے 10 گھنٹے ہوتی ہے، اِس ڈیوٹی میں وہ نہ صرف گھر کی صفائی ستھرائی کرتی ہیں بلکہ کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اِس طویل ڈیوٹی کی اُنہیں کتنی اجرت ملتی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہر گھر کا مختلف معاملہ ہے، جو اچھے اور خیال کرنے والے ہوتے ہیں وہ اِس کام کے 15 ہزار ماہ وار بھی دیتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اِسی کام کے 7 ہزار سے زیادہ دینا ظلم سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ تو آنے جانے میں ہی خرچ ہوجاتا ہے کیونکہ مالکان کی اکثریت بسوں کا کرایہ الگ سے نہیں دیتی، ہاں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو اِس حوالے سے بھی خیال رکھتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ کام کے دوران اکثر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو غصے اور بدتمیزیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جب غصہ سر چڑھ کر بول رہا ہو تو نوبت نازیبا الفاظ سننے تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ اکثر جگہوں پر تو بات نازیبا جملوں سے نکل کر تشدد تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ تشدد کرنے والے طاقتور اور ہم کمزور لوگ ہیں۔

اپنی کسمپرسی کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں یوں اپنے گھر سے نکلنا تو اچھا نہیں لگتا، لیکن اپنے گھر کے مردوں کے رویے سے تنگ آکر مجبوراً ذلت و خواری اٹھا کر اور دل پر پتھر رکھ کر اگلے روز مجبوراً کام پر جانا پڑتا ہے۔ اپنی ناخواندگی کے باعث اُنہیں اِس پیشے سے وابستہ ہونا پڑتا ہے، جس کے بارے میں عمومی طور پر معاشرے میں مثبت تاثرات نہیں ہوتے۔

پڑھیے: 'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں' — آگے کیا ہوا؟

شہر کے کم تعلیم یافتہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اِس پیشے سے وابستگی کی وجہ تو خود ہی جانتی ہیں، تاہم زرینہ بی بی اِس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اِن خواتین کے گھروں میں مرد کو واحد کفیل سمجھا جاتا ہے، تاہم اُن کے ہاں فیملی پلاننگ کے شدید فقدان اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ذہنی سکون دینے کے لیے نشے جیسی مہلک عادت کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کے بعد وہ اپنے کام کاج پر توجہ نہیں دے پاتے اور گھر کی آمدن میں واضح کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے، چنانچہ گھر کی خواتین کو آمدن کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔

مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ ایک ہی گھر کی ماں، بیٹی اور بہو ایک ساتھ روزی کمانے کی غرض سے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے نکلتی ہیں، جبکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اِن کے گھر کے بے روزگار مرد حضرات نشے کی عادی ہوتے ہیں اور اِس عادت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گھر کی خواتین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

گھروں میں کام کرنے والی اِن خواتین کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے چوری کے عام تاثر کے بارے میں زرینہ بتاتی ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ پیسوں کی اشد ضرورت کبھی کبھار گھر میں کام کرنے والی خواتین کو لالچ میں مبتلا کرکے چوری جیسے سنگین جرم پر بھی مجبور کردیتی ہے، اور ماضی میں اِس طرح کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں، لیکن اِس اقلیت کی وجہ سے سب کو ہی چور سمجھا جاتا ہے، جو بہت تکلیف دہ ہے۔

موبائل فون جیسے رابطے کی سہولت کس کے پاس نہیں لیکن گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے پاس اِس رابطے کے وسیلے کا استعمال بھی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ موبائل کا استعمال اِن کے گھر کے مردوں کو ذرا نہیں بھاتا، یہی نہیں بلکہ موبائل فون کو لے کر اُن پر طرح طرح کے طعنے کسے جاتے ہیں اور شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شک و الزام کا شور گھر کی چار دیواری کے باہر تک بھی سنائی دیتا ہے، جس وجہ سے، ایک ملازمہ کے مطابق، کنواری بیٹیوں کے رشتوں میں مشکلات پیش آتی ہے۔

پڑھیے: طیبہ انصاف کیلئے کس کے دروازے پر جائے؟

زرینہ بی بی شاید اپنے قانونی اور بنیادی حقوق کے بارے میں کسی طرح بھی آگاہ نہیں، کیونکہ یہ خواتین جن گھروں میں کام کرتی ہیں، وہاں اُنہیں بعض اوقات جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اکثر خواتین یہ بات صرف اپنے تک ہی محدود رکھتی ہیں اور ذلت و رسوائی کے ڈر سے کسی کو نہیں بتاتیں۔ اگر معاملہ برداشت سے باہر ہوجائے اور خوف بڑھ جائے کہ اب اُن کی عزت خطرے سے دوچار ہے تو مجبوراً وہ اپنی ملازمت ترک کر دیتی ہیں لیکن اس عذاب سے جان چھڑانے کے بعد پیٹ کی دوزخ مزید سلگ جاتی ہے اور فاقوں میں فراوانی آجاتی ہے۔

اس حوالے سے عباسی فیملی (ٹی اے ایف) فاؤنڈیشن کے ذیلی ادارے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ (وی ٹی آئی) کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ادارہ ایسی خواتین کی بھر پور مدد کرتا ہے، وی ٹی آئی نہ صرف ان خواتین کو ان کے قانونی حقوق بتاتا ہے، ساتھ ہی انہیں تربیت بھی دیتا ہے کہ ایسے موقع پر خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے، اسی طرح گھروں پر کام کرنے والی خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ وہ 8 گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ اتنا ہی لیں جتنی حکومت نے مزدور کی کم سے کم اجرت مقرر کی ہے۔

اِس تمام تر صورتحال میں خواتین کو بااختیار بنانے، اُن کے بنیادی اور قانونی حقوق کا خیال رکھنے، اُن کی خودداری کا استحصال روکنے اور اُن کی آبرو کی حفاظت کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہمیشہ خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اِس باشعور معاشرے میں خواتین کو ملازمت کے دوران وقار مجروح ہونے سے محفوظ بنانے اور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم اجرت دیے جانے کے لیے آواز کون اُٹھائے گا؟


*شناخت مخفی رکھنے کے لیے فرضی نام استعمال کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں