'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں' — آگے کیا ہوا؟

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2016
فیروزہ بچائے جانے کے بعد۔ فوٹو بشکریہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو فیس بک پیج۔
فیروزہ بچائے جانے کے بعد۔ فوٹو بشکریہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو فیس بک پیج۔

اس کا نام فیروزہ ہے اور وہ سات سال کی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایسا وقت آیا ہے جب اسے گرم چمٹے سے پیٹا نہیں جا رہا اور نہ ہی رات کے وقت ٹھنڈے باتھ روم میں بند کیا جا رہا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو (سی پی ڈبلیو پی) نے اسے گجرانوالہ کے کانگی والا بائی پاس کے قریب ایک گھر سے برآمد کیا ہے۔

فیروزہ وہی بچی ہے جس کی مدد کی پکار میں نے راولپنڈی میں سنی تھی اور نظرانداز نہیں کر سکا تھا۔

وہ رات کو پکارتی تھی، "باجی دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں"۔

میں نے اس پر تشدد کی کہانی ڈان ڈاٹ کام پر تحریر کی جس پر قارئین کی جانب سے زبردست ردِ عمل سامنے آیا۔ میں نے اپنے گذشتہ بلاگ میں تشدد کے شکار بچوں کے لیے ایک ہیلپ لائن کی خواہش کی تھی۔ خوش قسمتی سے پنجاب میں ایک ایسی ہیلپ لائن موجود ہے۔

جب میں اپنے بلاگ کے نیچے دیے گئے تبصرے پڑھ رہا تھا، تو ان میں حسن رشید کا ایک تبصرہ تھا کہ "1121 ڈائل کریں، کیا پتہ آپ کسی بچے کی جان اور مستقبل بچا سکیں؟"۔

جب نمبر ڈائل کیا گیا

حکومتِ پنجاب اور پولیس کی جانب سے فوری ردِ عمل سامنے آیا۔ کچھ ہی دیر میں راولپنڈی کی چائلڈ پروٹیکشن آفیسر مس کبریٰ ملک لائن پر تھیں، جنہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ فیروزہ کو بچانے کے لیے سرچ وارنٹ حاصل کریں گی اور اس پر عمل کروائیں گی۔

مگر پھر فیروزہ گجرانوالہ سے کیسے ملی؟

پشاور روڈ کے قریب ایک آبادی میں فیروزہ غیر قانونی طور پر ملازم رکھی گئی تھی۔ پڑوسیوں کو اس پر ہونے والے ظلم کا معلوم تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے گھر والوں سے پٹتے ہوئے بھی دیکھا تھا، مگر کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔

لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا نام راشدہ ہے اور وہ 12 سال کی ہے۔ یہ بے حسی نہیں تھی، مگر لوگ جانتے نہیں تھے کہ مدد کس سے طلب کی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ دردمند لوگ اور متاثرین ملزمان سے زیادہ پولیس سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا، اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ وہ کیسی دکھتی ہے۔ مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ راولپنڈی کینٹ کے ایک گھر میں ایک بچی باتھ روم میں بند تھی اور مدد چاہتی تھی۔ یہ 12 ربیع الاول کی رات تھی۔

اس رات میں نے ویسٹرِج پولیس کو اطلاع دی، جنہوں نے کچھ ہی منٹ میں ایک موبائل بھیج دی، مگر وہ تلاشی کے احکامات کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

چند دن بعد مس کبریٰ ملک اور ان کے ساتھی پولیس کے ساتھ آئے، اور اس بار ان کے پاس سرچ وارنٹس موجود تھے۔

مگر فیروزہ کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔

جب ہم گلی میں کھڑے یہ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے، تو ایک خاتون اپنے گھر سے نکلیں، اور پولیس کو بتایا کہ انہوں نے بھی بچی پر تشدد ہوتے دیکھا تھا، اور شاید اس گھرانے نے بچی کو قریبی گھر میں چھپا رکھا ہو۔ مزید پڑوسی بھی حمایت میں باہر نکل آئے۔ تلاش کا دائرہ دیگر گھروں تک پھیلایا گیا، مگر وہ پھر بھی نہیں ملی۔

جب فیروزہ پر تشدد کرنے والی خاتون اقصیٰ (آخری نام حذف کردیا گیا ہے) سے پوچھا گیا، تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ فیروزہ کو گجرانوالہ میں ایک اور گھرانے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

کچھ ہی منٹوں میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے گجرانوالہ دفتر میں اطلاع دی گئی۔ ایک اور سرچ پارٹی نے سرچ وارنٹس حاصل کیے اور آخرکار اسے کانگی والا بائی پاس کے قریب ایک گھر سے تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے ایک شخص خالد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جو مبینہ طور پر اقصیٰ کے والد ہیں۔

پولیس کو بعد میں معلوم ہوا کہ فیروزہ دیہی سندھ سے تعلق رکھتی ہے، اور شاید اسے اس کے وارثوں نے فروخت کر دیا تھا۔

فیروزہ نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے بارے میں بتایا۔ اقصیٰ اسے گرم چمٹے سے مارا کرتی اور پھر ایک ٹھنڈے باتھ روم میں بند کر دیا کرتی۔ باتھ روم سے آتی اس کی یہی آوازیں تھیں جنہوں نے مجھے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔

فیروزہ کی کہانی مایوسی اور امید کی ہے

ایسے معاشرے کے بارے میں کیا کہا جائے جہاں غربت یا لالچ کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو غلام کی طرح فروخت کر دیتے ہیں۔

ایسے گھر کے بارے میں کیا کہا جائے جہاں تین سالہ بچی کی ماں کسی دوسرے کی سات سالہ بچی کو باقاعدگی سے مارتی پیٹتی ہے۔

مگر امید کی کرن بھی موجود ہے۔ ویسٹرِج پولیس نے سورج طلوع ہونے سے قبل فون کرنے پر بھی چند ہی منٹوں میں پولیس موبائل بھیجی۔ یہ پولیس کا اقصیٰ کا گھر جانا ہی تھا جس نے انہیں خبردار کیا اور اسے وہاں سے منتقل کر دیا گیا۔

اس پر تشدد اس رات کے بعد سے رک گیا تھا، مگر وہ تب بھی محفوظ نہیں تھی۔

فیروزہ کو تشدد سے مکمل نجات صرف تب ملی جب گجرانوالہ کے چائلڈ پروٹیکشن آفیسر احمد چیمہ اور ان کے ساتھیوں نے اسے خالد بٹ کے گھر سے برآمد کیا اور ریاست کی تحویل میں لے لیا۔

شاید لوگ یہ پوچھیں کہ کیا فیروزہ کو واقعی بچا لیا گیا ہے؟

وہ کتنا عرصہ ریاستی تحویل میں رہے گی؟

اگر اسے اس کے حقیقی وارثوں تک پہنچایا گیا، تو کیا وہ اسے دوبارہ کسی اور خاندان کو فروخت کر دیں گے؟

یہ اہم سوالات ہیں، مگر ان سوالات کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ریاستی اداروں کو اپنا کام بخوبی اور بروقت کرنے پر داد نہ دیں۔ پولیس مدد طلب کرنے پر فوراً پہنچی۔ مس کبریٰ ملک کی ٹیم نے فوراً مکمل قانونی تحفظ کے ساتھ اقدام اٹھایا۔ مس کبریٰ ملک نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے کہ میری باقاعدہ شکایت ان تک پہنچتی، بیورو کی چیئرپرسن مس صبا صادق نے پہلے ہی فیروزہ کے بارے میں ڈان ڈاٹ کام پر بلاگ پڑھنے کے بعد ادارے کو الرٹ کر دیا تھا۔

پنجاب بھر میں بیورو زبردست کام کر رہا ہے، اور ان بے یار و مددگار بچوں کی مدد کر رہا ہے جنہیں ان کا خاندان اور معاشرہ دھتکار چکا ہے۔

انہوں نے لاہور میں انصار کی مدد کی، جسے گرم توے سے مارا جاتا تھا۔ اسے صرف 1000 روپے کی عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے شہزاد کو ایسے گھرانے سے چھڑوایا، جہاں اس کی مالکن اس کی گردن اپنے ناخنوں سے کھرچتی تھی۔ وہ اسے کپڑوں کے ہینگر سے مارا کرتی، جس سے اس کے سر اور آنکھوں کو نقصان پہنچا تھا۔

یہ تشدد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ آپ کے دوست، خاندان اور پڑوسی ہیں۔ یہ سب کچھ روکا جا سکتا ہے اگر ہم پہلا قدم اٹھائیں۔

ریاست نے پہلے ہی آپ کی مدد کے لیے قانون سازی کی ہے اور ادارے قائم کیے ہیں۔ پنجاب لاچار اور نظرانداز کردہ بچوں کا قانون 2004 (ترمیم 2007) ریاست اور معاشرے کو ظلم و ستم کا شکار بچوں کی مدد کرنے کے لیے اختیارات دیتا ہے۔ مگر ریاست یہ سب اکیلے نہیں کر سکتی۔

فیروزہ کی کہانی ہمیں ایک بات بتاتی ہے: ایک بے یار و مددگار بچے پر تشدد کرنے والوں کو روکنے کے لیے صرف ایک شخص ہی کافی ہے۔ پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، اور سب سے اہم، آپ کے پڑوسی، آپ کی مدد کے لیے ضرور کھڑے ہوں گے۔

مگر پہلا قدم آپ ہی کو اٹھانا ہوگا۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب صوبے کے سرکاری اسکولوں میں جا کر بچوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کر رہا ہے تاکہ بچے اپنے گھروں اور آس پاس میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کی ریاست کو شکایت کر سکیں۔

مجھے امید ہے کہ پاکستان میں ٹیلی کام انڈسٹری اور الیکٹرانک میڈیا بھی ایسی ہی مہم چلائیں تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ اس طرح کے معاملات میں کس سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ مجھے یہ امید بھی ہے کہ اگر دوسرے صوبوں نے اب تک یہ کام نہیں کیا ہے، تو اب وہ پنجاب کی مثال پر عمل کرتے ہوئے مؤثر اور باوسائل چائلڈ پروٹیکشن بیورو قائم کریں گے۔

یہ کہنا درست نہیں کہ بچے قیمتی ہوتے ہیں — فیروزہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

وہ اور اس کی طرح کے دوسرے بچے اس ملک کا مستقبل ہیں۔ انہیں بچایا جانا اور انہیں پروان چڑھانا چاہیے تاکہ اس قوم کا مستقبل سنور سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (23) بند ہیں

anees Jan 18, 2016 05:24pm
Mashallah. Allah pak ap sb ko jazaay-e-khair dy
SMH Jan 18, 2016 05:50pm
کیا ٹورنٹو پنڈی اور گوجراںوالا سے بنسبت اسلام آباد ذیادہ قریب ہے؟
[email protected] Jan 18, 2016 06:11pm
Commendable effort. Hats off to child protection department of Punjab Government. I hope we all can feel our responsibility and act to help improve our society.
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 18, 2016 06:12pm
فیروزہ کو بچانے کا سہرا بلاگر صاحب اور ڈان بلاگ ڈیسک اور اس کے موڈریٹر کے سر جاتا ہے۔ فیروزہ کا کیس حل کرنے میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور پولیس اور دیگر معاون اداروں نے جو پھرتی دکھائی ہے وہ صرف اس وجہ سے کہ یہ کیس ڈان میڈیا گروپ میں آ چکا ہے اور عوام کی بھرپور اخلاقی مدد حاصل کر چکا ہے اور یہ سب ہو چکنے کے بعد ادارے حرکت میں نہ آتے تو ان اداروں کی بےحسی اور نااہلیت جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانی تھی۔ ہمارے ادارے تب ہی حرکت میں آتے ہیں جب ان اداروں کی ساکھ (اگر ہو تو) مزید نہ گرے۔ فیروزہ جیسے واقعات کی روک تھام کا حل تب ہی ہو گا جب میڈیا نیوز میں خبریں آئیں وگرنہ ادارے ازخود کام نہیں کرتے۔ پولیس کلچرایک ایف آئی آر کاٹنے کا ثبوت مانگتے ہیں حالانکہ سائل کی بات کو سن کر موقع پر ناکہ بندی کروانے سے جرائم پیشہ افراد بھی قابو ہو سکتے ہیں مگر پولیس متاثرہ شخص کی بپتا پر یقین ہی نہیں کرتی۔ بندہ پوچھے کہ اگر جھوٹی بپتا ہے تو آپ بعد میں متاثرہ شخص سے نمٹ لیں، پہلے شکایت کو سنیں اور ضروری کاروائی موقع پر کریں۔ مگر یہ تھانہ اسٹیٹ ہے جس میں صرف سیاستدانوں کی حفاظت اور ان کے عزائم کے لیے ہے۔
tariq hussain Jan 18, 2016 06:41pm
sirf apny bachy hi apny nahy hoty iss waten ke sary bachno ko apna samjhna chahi tum dosrno ke ulad ka bhala karo khuda tumhary uladbachno perr rahem kary ga
Waseem Jan 18, 2016 08:36pm
Sorry for bit ofsarcastic comment on your previous blog. and thanks for talking to the very end. that is all needed to stop voilence and abuse, speak out and ask for help
ghazanfar Jan 18, 2016 08:39pm
CHILDREN ARE THE GIFT FROM GOD, FEAR FROM GOD ABOUT TREATING THEM.
وسیم رضا Jan 18, 2016 08:52pm
قید کی سزا اس عورت کےلئے بہت کم ہوگی۔۔
avarah Jan 18, 2016 09:18pm
You proved no. 1.
حافظ Jan 18, 2016 09:58pm
ناظرین پنجاب میں چائلڈ پروٹکشن ایکٹ نافذ ہو چکا ہے، باقی صوبوں کے رہنے والے بلاگ لکھے جانے کا انتظار کریں۔
irfan Jan 19, 2016 12:49am
!تسی گریٹ ہو جی
Sofia kashif,abudhabi Jan 19, 2016 02:17am
اس کو پڑھ کر آنکھ میں آنسو آ گیے. میں نے پرانا بلاگ بھی پڑھا تھا اور کچھ نہ لکھ سکی تھی.سات سال کی بچی.......میری بیٹی نو سال کی ہے اور مجھے ابھی بھی بچی دکھتی ہے.ہم نجانے کیوں اپنے بچوں کو بچے اور غریب کے بچے کو ہٹے کٹے غلام سمجھتے ہیں.
حیدر سندھو Jan 19, 2016 04:59am
لعنت ہو ایسے لوگوں پے جو انسنیات کے لائق ہی نہیں
Murad Akbar Jan 19, 2016 10:17am
Hats off- to you and Child Protection Bureau
Muzaffar ul Hassan Jan 19, 2016 10:46am
Marvelous efforts and very good lesson for all of us to raise the voice. "apnay hisay ki koi shama jalatay jatay"
فہیم الرحمن Jan 19, 2016 12:01pm
اللہ آپ کو جزا خیر دے۔ ایک بات تو ثابت ہو گی کہ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
Sharminda Jan 19, 2016 02:51pm
Hats-off for everyone who has done this great job.
MOAWAZ IFTIKHAR Jan 19, 2016 03:13pm
nice job!
Rizwan Ali Jan 19, 2016 03:13pm
الله کا خوف کدھر چلا گیا ???
Rizwan Ali Jan 19, 2016 03:19pm
بچوں پر تشدد کو الله معاف ھی نھیں کرے گا چاھے بعد میں اس بچے سے معاف کرا بھی لیا جائے
سجاد خالد - Sajjad Khalid Jan 19, 2016 03:28pm
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو کل تک میری جانب سے بھی ایک کال 1121 پر موصول ہو گی۔ دیکھیں وہ بالکل اسی نوعیت کے کیس کو لاہور میں کیسے رسپانڈ کرتے ہیں۔
Ishtiaq Ahmad Jan 19, 2016 03:36pm
Mashallah. Allah pak ap sb ko jazaay-e-khair d
Najam Hasan Jan 20, 2016 02:31pm
سلام ھے پنجاب حکومت کو جس نے اچھا ادارہ قائم کیا جو لا چار بچوں کے لۓ ھے۔۔۔کیا سندھ میں بھی ایسے ادارے ھیں؟ اگر نہیں تو کیا وھاں انسان نھیں بستے؟