’خلائی اسٹیشن گرنے کا وقت شروع‘

25 اکتوبر 2017
چینی خلائی اسٹیشن کسی وقت بھی کسی بھی جگہ گرسکتا ہے—فائل فوٹو: بس بوس ڈاٹ کام
چینی خلائی اسٹیشن کسی وقت بھی کسی بھی جگہ گرسکتا ہے—فائل فوٹو: بس بوس ڈاٹ کام

انسان کی فطرت میں ہی یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی پہنچ کے دائرہ کار کو کائنات کی لامحدود گہرایوں تک وسیع کرنا چاہتا ہے، یہ سوچ انسان کو جہاں ترقی پذیر ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے وہیں اِس بات کا ڈر بھی دماغ میں بٹھا دیتی ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔

اِور ایسا ہی حال 1960 میں امریکی سائنسدانوں کا تھا، جنہوں نے چاند اور دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کا منصوبہ بنایا۔ اِس کام کو سر انجام دینے سے پہلے کچھ باتوں کی صحیح طرح سے جانچ کر لینا بہت اہم تھا۔

پہلا کام تو یہ تھا کہ ہم اِس قابل ہو جائیں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ قوت پیدا کرنے والے راکٹ موجود ہوں جو ہم انسانوں کو خلا کی گہرایوں میں لے جائیں۔ آج انسان ایسے راکٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جن کے ذریعے یہ خلا میں سفر کر سکتا ہے، مگر اِس کے باوجود بھی ہم اسی کوشش میں ہیں کہ راکٹ کو اتنی جِدّت سے نوازا جائے کہ ہم روشنی کی رفتار سے بھی سفر کرنے کے قابل ہو جائیں۔

راکٹ تیار کرنے کے بعد امریکی سائنسدانوں نے زمینی ماحول سے باہر جاکر ایک نئی دنیا تلاش کرنے کے کام کو شروع کیا، اور اس لیے ماہرین نے خلا میں جانے کے لیے سیٹلائٹ تیار کی، جسے خلائی اسٹیشن بھی کہا جاتا ہے، یہ کام بھی امریکی ماہرین نے شروع کیا۔

امریکا کی جانب سے زمین سے 300 کلومیٹر اونچائی پر سفر کرتا "بین القوامی خلائی اسٹیشن" بنایا گیا، آج اِس میں سائنسدان بہت سے تجربات کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2 خلانوردوں سمیت چینی مشن خلائی اسٹیشن روانہ

خلائی اسٹیشن بنانا اور خلا میں جاکر تجربات کرنا صروف امریکا اور روس تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ بھی دیگر سائنسی تجربات کی طرح چین سمیت دیگر ممالک تک پھیلنے لگا۔

دیگر ممالک کی دیکھا دیکھی چین نے بھی خلا میں خلائی اسٹیشن بھیج کر تجربات کرنے کی کوشش کی اور 2011 میں اپنا ایک خلائی اسٹیشن زمین کے گرد بھیجنے کے لیے تیار کر لیا اور 29 ستمبر 2011 کو اِس خلائی اسٹیشن کا پہلا حصّہ خلا میں بھیج دیا، چین نے اپنے اِس خلائی اسٹیشن کا نام "تائنگونگ" رکھا، یہ چینی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب "آسمانی محل" ہے۔

29 ستمبر 2011 کو بھیجے گئے چینی خلائی اسٹیشن کے پہلے حصّے کا نام "آسمانی محل اوّل" تھا، اور پھر 10 ستمبر 2016 کو چین کی جانب سے "آسمانی محل دوئم" بھی خلا میں بھیج دیا گیا۔

اِس اسٹیشن کے پہلے حصے کے خلا میں جانے کے بعد اس میں چینی خلابازوں کو بھی بھیجا گیا، ان خلابازوں میں "لیو یانگ" کو اس خلائی اسٹیشن میں پہلی چینی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا, لیکن اکثر کہا جاتا ہے کہ "بُری خبر کسی کو بتا کر نہیں آتی"، تو کچھ یہی حال چین کے اس خلائی اسٹیشن کے ساتھ بھی ہوا۔

2011سے 2016 تک اس اسٹیشن میں تجربات کئیے گئے، لیکن 2016 کے وسط میں بدقسمتی سے چین اس آسمانی محل کا کنٹرول کھو بیٹھا، اور اب اس اسٹیشن کا کوئی سنبھالنے والا نہیں، البتہ چین نے اقوام متحدہ کو اس حوالے سے آگاہ کردیا ہے۔

2016 سے اب تک اس اسٹیشن کا مدار درجہ بدرجہ چھوٹا ہو رہا ہے، اور زمین کی کشش بتدریج اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔

ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹروفزکس کے خلائی ماہر ڈاکٹر جوناتھن میک ڈوول کا کہنا ہے کہ ”اب اس کی پیریگی 300 کلومیٹر سے کم رہ گئی ہے، اور یہ کثیف ماحول کی جانب بڑھ رہا ہے"۔

واضح رہے کہ فلکیاتی اصطلاح میں پیریگی کسی بھی سیٹلائٹ کے مدار میں وہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ زمین سے قریب تر ہو۔

ڈاکٹر جوناتھن میک ڈوول نے مزید کہا کہ "اکتوبر 2017 سے اپریل 2018 کے دوران اس خلائی اسٹیشن کے زمین پر گرنے کا امکان ہے".

جیسے جیسے یہ زمین کے قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے ارد گرد ہوا کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، ہوا اور اس اسٹیشن کے درمیان رگڑ سے حرارت پیدا ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر جوناتھن میک ڈوول نے یہ بھی بتایا کہ "جب یہ اسٹیشن زمینی فضا میں تیزی سے گزرے گا تو حرارت کی وجہ سے اس میں آگ بھڑک اٹھے گی، اور یہ ہوا میں ہی کچھ حد تک راکھ ہو جائے گا لیکن اس کے 100 کلو گرام وزنی ٹکڑے زمین پر آ گریں گے، یہ ٹکڑے کس جگہ گریں گے، ابھی اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

ڈاکٹر جوناتھن میک ڈوول نے یہ بھی بتایا کہ "اگر اس آسمانی محل نے برِ اعظم ایشیا میں گِرنا ہوگا تو ماحول میں ہلکا سا فرق آنے پر یہ برِ اعظم افریقہ میں جا گِرے گا" لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملبہ سمندر میں گِرنے کی زیادہ امید ہے، کیون کہ زمین کا تقریبا 70 فیصد حصّہ پانی پر مشتمل ہے۔

یہ حادثہ تو پیش آنا ہی ہے مگر اس خبر کے بعد چینی خلائی ایجنسی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں، اور ایک سوال جو ہر کسی کی زبان پر ہے کہ یہ چینی آسمانی محل اس قدر ناپائیدار تھا کہ مشکل سے 5 برس خلا میں گزارنے کے بعد آج پوری دنیا کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے؟

یقینا اس پر تحقیق ہوگی، لیکن یہ آفت دنیا میں کس جگہ نازل ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Oct 25, 2017 01:25pm
This article reminded of Skylab which ended up falling in 1979 in Balladonia, Western Australia despite all beliefs by NASA that it'll burn up after re-entry in earth's atmosphere. Hopefully Chines station doesn't fall in a populated place.