قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں احتساب عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد ہونے کے خلاف وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی دوسری پٹیشن بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کردی۔

جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 11 اکتوبر کو اسحٰق ڈار کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

واضح رہے کہ اسحٰق ڈار پر آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں دائر نیب ریفرنس کے سلسلے میں گذشتہ ماہ فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل ایڈووکیٹ عبد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہمارے دلائل تک نہیں سنے جبکہ اسحٰق ڈار کے پاس آئینی فرائض نبھانے کا قانونی اختیار موجود ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں ماہ کے اوائل میں اسحٰق ڈار پر فرد جرم عائد ہونے کے خلاف دائر پہلی درخواست بھی خارج کردی تھی۔

اسحٰق ڈار کے مشیر کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت نے نیب ریفرنس کی کاپی ملنے کے فوری بعد ان کے موکل پر فرد جرم عائد کردی، جبکہ کیس کی تیاری کے لیے کم سے کم 7 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ 8 ستمبر کو نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف 3 اور اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 18 ستمبر کو نیب لاہور نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا کہ وزیرخزانہ کے خلاف ریفرنس التوا کا شکار ہے، اس لیے ’اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس کو منجمد کردیا جائے‘۔

تاہم بیورو نے مذکورہ اکاؤنٹس سے رقم کی منتقلیوں کا معاملہ احتساب عدالت کے حکم سے منسوب کردیا۔

اس کے علاوہ نیب نے ضلعی حکومت کو بھی تحریری طور پر لکھا کہ اسحٰق ڈار کی جائیداد کے ٹرانسفر کا معاملہ روک دیا جائے اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر انہوں نے ان ہدایات کی خلاف ورزی کی تو انہیں قومی احتساب آرڈیننس کے تحت 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں