کیلشیئم کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ دودھ ہے اور یہ جز دانتوں، مسوڑوں اور ہڈیوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر پاکستان میں خالص دودھ کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوچکا ہے۔

یہ اعتراف ضلعی ہیلتھ آفیسر اسلام آباد ڈاکٹر محمد طاہر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کو بریفننگ دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے بتایا ' حال ہی میں ہم نے ملاوٹ شدہ اور غیر معیاری دودھ کے خلاف ایک مہم شروع کی اور 70 ہزار لیٹر دودھ کا جائزہ لینے کے بعد 36 ہزار لیٹر کو ضائع کردیا کیونکہ وہ ملاوٹ شدہ تھا'۔

مزید پڑھیں : دودھ خالص ہے یا ملاوٹ شدہ جاننا بہت آسان

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں دودھ میں ملاوٹ کے لیے پانی کا استعمال ہوتا تھا مگر اب ڈیٹرجنٹ، کیمیکلز اور پاﺅڈر وغیرہ کا استعمال ہورہا ہے تاکہ دودھ کی مہک، رنگت اور گاڑھا پن برقرار رہے۔

محمد طاہر کا کہنا تھا کہ کھلے اور ڈبہ بند دودھ دونوں میں اس طرح کے مسائل موجود ہیں جبکہ اس کی وجہ سے بچوں سے لے کر بڑوں تک، سب کو دانتوں اور ہڈیوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ دودھ خالڈ نہ ہونے سے جسم میں کیلشیئم کی کمی ہونا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا ' حال ہی میں ہم نے روات اور ترنول میں غیرمعیاری دودھ کے نمونے حاصل کیے اور 208 دودھ فروخت کرنے والوں کو نوٹسز جاری کیے، جبکہ شہریوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے 1317 لیکچرز کا انعقاد کروایا'۔

یہ بھی پڑھیں : مشہور برانڈز کے دودھ بھی استعمال کے قابل نہیں

مرغی کے گوشت کے مسائل

پولٹری پراڈکٹس کے مسائل کے حوالے سے باہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولٹری فیڈ میں اسٹرائیڈز کے استعمال کی وجہ سے چکن کھانا لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوچکا ہے، خصوصاً بچوں کے لیے۔

اس موقع پر سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ اس وقت دریافت پولٹری فیڈ پر مرغیاں آٹھ ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتیں۔

بعد ازاں ڈاکٹر طاہر نے ڈان کو بتایا کہ ٹی وائٹنر دودھ کی غذائی خوبیوں کے حامل نہیں اور حکومت نے درست فیصلہ کیا ہے کہ ان پیکٹ پر یہ درج کیا جائے کہ یہ ٹی وائٹنر ہیں۔

انہوں نے دودھ میں ملاوٹ اور معیار کو چیک کرنے کے لیے عام شہریوں کو لیکٹومیٹر کے استعمال کا مشورہ دیا جو کہ چند ہزار روپے میں آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔

یہ خبر یکم نومبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں