قومی اسمبلی کا اجلاس اراکین کی کمی کے باعث تازہ مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اہم آئینی ترمیم کی منظوری کے بغیر ختم ہوگیا۔

اسپیکرایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو آج بھی ارکان کی کمی کا سامنا رہا جس پر اسپیکر بھی نالاں نظر آئے جبکہ اہم ترمیم منظور نہ ہوسکی۔

اس موقع پر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ تاثر مل رہا ہے کہ چھوٹے صوبوں کی نشستیں بڑھنے پر دانستہ طور پر تاخیر کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوچ رہا ہوں کہ اجلاس کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردوں۔

اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں سب معاملات طے پا گئے تھے لیکن لگتا ہے کہ اچانک ارادہ تبدیل ہونے پر مجھے دوبارہ مشاورتی اجلاس بلانا پڑے گا۔

ایاز صادق نے کہا کہ جب تک حکومت تمام تحفظات دور نہیں کرتی ہم بیٹھے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے ترمیم نہ ہوئی تو سپریم کورٹ جائیں گے۔

اس موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر سپریم کورٹ جانا چاہے تو یہ ان کا حق ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ عام انتخابات شیڈول کے مطابق اگست میں ہوں گے اور ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ کچھ کر بھی لیں گے تو پھر بھی صورت حال ایسی ہی نظر آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم پر کوئی اعتراض نہیں، جب بات ہوگی تبھی مسئلے کا کوئی حل نکلے گا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ہماری حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کرنا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومتی اراکین کا موجود نہ ہونا اس پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔

سابق وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کا کہنا تھا کہ اگر ترامیم کی یہی رفتار رہی تو ایوان چلانا مشکل ہو جائے گا، اگر حکومت آئین کے مطابق چلے گی تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیٹوں کی تقسیم کا طریقہ کار مناسب نہیں، اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہااور اگر عزت بچانی ہے تو معاملے کو شفاف طریقے سے حل کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ ترمیم کی منظوری کے لیے 342 ارکان کے پارلیمان میں 228 کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

بعد ازاں اسپیکر نے منگل کو تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کر لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں