اسلام آباد: آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سربراہی میں ’پاکستان عوامی اتحاد‘ کے نام سے 23 جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کردیا۔

آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں پرویز مشرف کی سربراہی میں قائم ہونے والے اتحاد کا اجلاس ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد امجد، سردار عتیق احمد خان، اقبال ڈار اور دیگر قائدین نے شرکت کی۔

اجلاس میں آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین، سنی اتحاد کونسل، مسلم لیگ (جونیجو)، مسلم کانفرنس (کشمیر) اور پاکستان مزدور محاذ سمیت مجموعی طور پر 23 جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔

اتحاد کی دیگر جماعتوں میں پاکستان سنی تحریک، پاکستان مسلم لیگ (کونسل)، پاکستان مسلم لیگ (نیشنل)، عوامی لیگ، پاک مسلم الائنس، کنزرویٹیو پارٹی، مہاجر اتحاد تحریک، پاکستان انسانی حقوق پارٹی، ملت پارٹی، جمعیت علماء پاکستان (نیازی گروپ)، عام لوگ پارٹی، عام آدمی پارٹی، پاکستان مساوات پارٹی، پاکستان منارٹی پارٹی، جمعیت مشائخ پاکستان اور سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔

اتحاد کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم کیا گیا ہے جس کے چیئرمین جنرل (ر) پرویز مشرف جبکہ اقبال ڈار سیکریٹری جنرل ہوں گے۔

اس موقع پر نئے گرینڈ الائنس کا منشور بھی جلد پیش کرنے کا اعلان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کا ایم کیو ایم،پی ایس پی کے اتحاد پر خوشی کا اظہار

اتحاد میں شامل جماعتیں


- آل پاکستان مسلم لیگ
- پاکستان عوامی تحریک
- مجلس وحدت المسلمین
- سنی اتحاد کونسل
- مسلم لیگ (جونیجو)
- مسلم کانفرنس (کشمیر)
- پاکستان مزدور محاذ
- پاکستان سنی تحریک
- پاکستان مسلم لیگ (کونسل)
- پاکستان مسلم لیگ (نیشنل)
- عوامی لیگ
- پاک مسلم الائنس
- کنزرویٹیو پارٹی
- مہاجر اتحاد تحریک
- پاکستان انسانی حقوق پارٹی
- ملت پارٹی
- جمعیت علماء پاکستان (نیازی گروپ)
- عام لوگ پارٹی
- پاکستان مساوات پارٹی
- پاکستان منارٹی پارٹی
- جمعیت مشائخ پاکستان
- سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی

بعد ازاں ویڈیو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ ’جب بھی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی بات آتی ہے تو میرا نام لیا جاتا ہے، میں پاگل نہیں ہوں جو کراچی کی ایک چھوٹی لسانی جماعت کا سربراہ بن جاؤں، ایم کیو ایم کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر تشویش ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان اب آدھی جماعت رہ گئی ہے، جبکہ میں فاروق ستار یا مصطفیٰ کمال کی جگہ نہیں لینا چاہتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی ایس پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد ایک دن چلا اور ختم ہوگیا، اگر دونوں جماعتیں اتحاد کر لیں تو بہتر ہے، لیکن یہ دونوں اکٹھی ہو بھی گئیں تب بھی میں اس کا سربراہ نہیں بنوں گا۔‘

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہان ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے ’سیاسی اتحاد‘ کا اعلان کیا تھا۔

مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’ایک عرصے سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں مشاورتی عمل جاری تھا، فیصلہ کیا ہے کہ مل کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی خدمت کریں اور بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی اتحاد عارضی اور جزوی عمل نہیں، آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کو لے کر جائیں گے، آئندہ ملاقاتوں میں فریم ورک کو تشکیل دیں گے، اتحاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے کیونکہ سندھ اور کراچی کی خدمت کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا، جبکہ امید ہے اب ہمارے سیل دفاتر واپس مل جائیں گے۔‘

مصطفیٰ کمال نے فاروق ستار کے سیاسی اتحاد کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک انتخابی نشان کے ساتھ پارٹی کے لیے تیار ہیں، ہم ایک نشان، نام اور منشور پر مل کر ایسی قیادت نکالنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی آواز بنے۔‘

دونوں جماعتوں کے اتحاد کے ایک روز بعد ہی فاروق ستار، مصطفیٰ کمال پر خوب گرجے برسے اور اپنی رابطہ کمیٹی سے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی سربراہی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔

تاہم اس کے اعلان کے ایک گھنٹے کے اندر ہی انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔

مزید پڑھیں: 'پاک سر زمین' میں مشرف کا مستقبل

ویڈیو نیوز کانفرنس کے دوران سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’وقت کی ضرورت ہے کہ اب تمام مہاجر اتحاد کریں اور میری سربراہی میں پاکستان عوامی اتحاد میں شامل ہوجائیں، میں کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ ایک بڑے الائنس کی سربراہی کرنا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کراچی اور مہاجروں کے مسائل کا حل صرف اتحاد میں ہے، مہاجر مل جائیں اور ایک نئے نام سے پارٹی بنا لیں، ایم کیو ایم اور مہاجر نام بدنام ترین ہوچکے ہیں، مہاجر برادری خود کو پاکستانی کہے اور نئے نام کے ساتھ متحد ہوجائیں، یہ سب اکٹھے ہوجائیں تو ایک نئی قوت بنتی ہے جو پاکستانی قوت ہوگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی سیاست میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کر رہی ہیں انہیں ہینڈل کرنے والے لوگ پاکستان میں موجود ہیں، پنجاب میں پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے، (ن) لیگ نے پنجاب اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں تباہی مچائی ہوئی ہے جس کا اتحاد سے خاتمہ کریں گے۔‘

اپنے خلاف کیسز کے حوالے سے سابق صدر نے کہا کہ ’میں کیسز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں، پہلے نواز شریف عدالتوں کو چلاتے تھے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں، نواز شریف کا سیاسی مستقبل ختم ہوچکا ہے، عدالتوں اور جے آئی ٹی میں جو ہو رہا ہے وہ ہونا چاہیے، جبکہ میرے آنے سے احتساب کا عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔‘

انتخابات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’الیکشن سے اگر مسائل کا حل مل رہا ہے تو ہمیں الیکشن کی طرف جانا چاہیے ورنہ پاکستان کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے کچھ اور اقدامات کرنا ہوں گے۔‘

اس موقع پر سیکریٹری جنرل اے پی ایم ایل ڈاکٹر امجد نے 25 نومبر کو ایوان اقبال لاہور میں کنونش اور دسمبر میں کراچی میں بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عمر بشیر خان Nov 11, 2017 11:28am
500x23=11500 تمام جماعت مل کر اگر الیکشن میں ایک نشان کے تحت حصہ لیں تو وہ زیادہ سے زیادہ سے زیادہ گیارہ ہزار ورٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گی ۔ جس کا مطلب ہے یہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کے اتحادی آئندہ بھی قومی /صوبائی اسمبلیوں میں نہیں ہونگے