لنڈی کوتل: افغان باشندوں کی درست سفری دستاویزات کے ساتھ پاکستان آمد کے بعد طورخم سرحد پر برآمدات اور درآمدات کے علاوہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

سرحدی حکام نے اس حوالے سے ڈان کو بتایا کہ اوسطاً 8 سے 9 ہزار افغان باشندے یومیہ طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے تھے لیکن گذشتہ کچھ روز میں یہ تعداد تقریباً 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

حکام نے بتایا کہ گزشتہ برس جون میں پاکستانی حکام کی جانب سے افغان شہریوں پر سخت سفری پابندیوں کے بعد 1200 سے 1400 یومیہ اندراج کے مقابلے میں افغان باشندوں کی بڑی تعداد میں آمد غیر معمولی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ کی تعمیر پر دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کی جانب سے شدید فائرنگ ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: پاک-افغان طورخم بارڈر 5 دن بعد کھول دیا گیا

حکام نے کہا کہ رواں سال جون کے واقعے سے قبل اسلام آباد اور طورخم سرحد پر موجود پاکستانی انتظامیہ کو سرحد کے ذریعے 20 ہزار سے زائد افغان کی آمد کے حوالے سے شدید تحفظات تھے، جس میں سے زیادہ تر پاکستان میں داخل ہونے کے لیے غیر قانونی سفری دستاویزات استعمال کرتے تھے، جو بڑا سیکیورٹی خطرہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر افغان انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی سفری پابندیوں پر اعتراض اٹھائے گئے لیکن آہستہ آہستہ وہ حالات کے مطابق ایڈجسٹ ہوگئے، جس کے نتیجے میں طورخم سرحد کے راستے پاکستان آمد آنے والے افغان باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

حکام نے کہا کہ نئی سرحدی مینجمنٹ پالیسی کا ایک اور مثبت اثر یہ ہوا کہ افغان حکام نے بھی اپنی جانب سے سرحدی نگرانی شروع کردی جس سے راہگیروں کی نقل و حمل کو جانچنے میں آسانی ہوئی، اس کے علاوہ افغان سرحدی حکام کی جانب سے تبدیل اور دوستانہ رویئے پر پاکستانی حکام کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

حکام نے کہا کہ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی الگ داخلی اور خارجی راستے ہونے چاہیے، جس پر ہم نے افغان حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ اس حوالے سے اقدام کریں تاکہ دونوں اطراف کی سرحدوں پر انسانی نقل و حمل کو ریگولیٹ کیا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں موسم سرما کے باعث پاکستان میں رہنے والے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرد افغان شہریوں کی افغانستان واپسی میں کمی آئی ہے۔

حکام نے بتایا کہ واپسی میں کمی معمولی رجحان ہے کیونکہ زیادہ تر افغان موسم سرما میں سخت موسمی حالات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور پاکستان میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طورخم سرحد سے افغان باشندوں کی آمد میں بڑی تعداد میں اضافہ مقامی ٹیکسی ڈرائیوروں اور چھوٹے تاجروں کے لیے فائدہ مند ہے۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور تیم خان کا کہنا تھا کہ طورخم ٹیکسی اسٹینڈ پر 3 ہزار ٹیکسیاں یومیہ افغان مسافروں کو زیادہ تر پشاور اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے مختلف مقامات پر لے کر جاتی ہیں، گزشتہ برس افغان شہریوں کو لے جانے والی ٹیکسیوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر 30 یا 40 تک کمی آئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طورخم بارڈر پر پاک-افغان فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر افغان علاج معالجے یا تجارت کے سلسلے میں آتے ہیں جبکہ کچھ روزانہ کی بنیاد پر اپنے اہل خانہ اور پاکستانی دوستوں سے ملنے آتے ہیں۔

اس کے علاوہ ریسٹورنٹ مالکان اور کرنسی ڈیلر نے بھی افغان شہریوں کی آمد سے تجارتی سرگرمیوں کے بڑھنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

مقامی تاجر شبیر شنواری کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس جون میں پاکستانی حکومت کی جانب سے سخت سفری پابندیوں کے اعلان کے بعد سے سیکڑوں ٹیکسی ڈرائیوروں نے اپنا کام تبدیل کرلیا جبکہ درجنوں ریسٹورنٹ مالکان دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں کی آمد میں اچانک کمی کے باعث منی چینجرز کو بھی نقصان کا سامنا تھا تاہم بہتر تجارتی سرگرمیوں کے باعث یہ حالت بہتر ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان باشندوں کی آمد کے باعث ٹیکسی اسٹینڈ پر رش لگا رہتا ہے جو مقامی تاجروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے خوش آئند ہے۔


یہ خبر 30 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں