سیاست میں ’کامیابی‘ کے لیے سب سے اہم حیثیت بروقت فیصلوں کو حاصل ہے۔ ایسے فیصلے جو ایک سیاستدان کے حالات پر گہری نظر اور مضبوط گرفت ثابت کردیں۔ یعنی ایسا فیصلہ جو عوامی موڈ کے لحاظ سے درست اور سیاسی فائدے کے اعتبار سے سود مند ہو۔ زیرک سیاستداں وہی ہے جو اپنے کیرئیر میں اِن دونوں باتوں کو ساتھ لے کر چل سکے۔ عوامی مقبولیت ہی سیاستدان کی اصل اثاث ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی فائدے کی صورت وہ پھل ہاتھ سے جانے دیا جائے جس کے لیے تمام تگ و دو کی ہو۔

اِس کسوٹی پر کامیاب سیاستدانوں کی فہرست میں ایک اہم نام ملتان سے تعلق رکھنے والے مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کا ہے۔

روایت شکن ہونے کا تاثر رکھنے والے جاوید ہاشمی نے روایتی سیاست کے تقاضے بھی بھرپور نبھائے۔ عملی سیاست میں طویل کیریئر کے حامل مخدوم جاوید ہاشمی نے اسٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ وہ اسلامی جمیعت طلباء کے رکن بنے اور پھر اُسی کے پلیٹ فارم سے پنجاب یونیورسٹی طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے تناظر میں 1974 میں چلنے والی ’بنگلہ دیش نامنظور‘ تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ پھر بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن میں بھی پیش پیش رہے۔

دوسری طرف عملی سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے ’عملی‘ فیصلہ کیا اور اپنے ایک صحافی دوست کے مشورے پر جماعت اسلامی کے بجائے تحریک استقلال میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت اصغر خان پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا ’امکان’ بن کر سامنے آئے تھے اور سمجھا جاتا تھا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کا سیاست میں کوئی مقابل ہوسکتا ہے تو وہ اصغر خان ہی ہے۔ اِس دوران اُن کا ایک پڑاؤ جنرل ضیاء الحق کی حکومت بھی بنی۔ وہاں وفاقی وزیر کے عہدہ تک پہنچے اور پھر مارشل لاء سے اصولی اختلاف کی بنیاد پر مستعفی ہوگئے۔

1988 میں میاں نواز شریف کی پارٹی میں شمولیت کے بعد اُن کی مسلم لیگ نواز کے ساتھ ایک طویل اننگز رہی۔ اِس دوران وہ پہلے وزیر مملکت اور پھر وفاقی وزیر بھی رہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کے دوران جب شریف خاندان کو ایک معاہدہ کے تحت ملک اور ملکی سیاست سے بے دخل کردیا گیا تو مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ نواز کے صدر بنا دیے گئے اور میاں صاحب کی وطن واپسی تک وہ اِس عہدے پر متمکن رہے۔

اِس دوران جاوید ہاشمی پر بھرپور آزمائش کا دور بھی آیا جب 2003 میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے مبینہ طور پر فوج کے جونئیر افسران کی جانب سے سینئر افسران کے خلاف لکھا جانے والا ایک خط پیش کیا اور چند سوالات اُٹھائے۔ اِس کی پاداش میں ہاشمی صاحب کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابندِ سلاسل کردیا گیا اور وہیں اُن پر مقدمہ بھی چلتا رہا۔

قید و بند کا یہ دور اُنہوں نے بہت ثابت قدمی سے برداشت کیا اور حکومتِ وقت سے معافی تلافی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اِس پر نہ صرف پارٹی کی صفوں میں اُن کا قد اونچا ہوا بلکہ خود پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے بھی اُنہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔

اِن ظاہری حالات کے برعکس بعض مبصرین کے مطابق یہیں سے میاں نواز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان تعلقات سرد مہری کی طرف بڑھنے لگے جس کا انجام مسلم لیگ ن سے اُن کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنرل مشرف حکومت کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد جاوید ہاشمی خود کو اپنے دیگر ساتھیوں کی نسبت پارٹی میں ترجیحی سلوک کا حقدار سمجھنے لگے تھے۔

مگر اُن کے اِس زعم کو پہلی ٹھیس تب پہنچی جب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اُن کے بجائے چوہدری نثار علی خان کو 2008 کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مقرر کردیا گیا۔ پھر اِس کے بعد جاوید ہاشمی کی شدید خواہش کے باوجود 2008 کے صدارتی انتخاب میں نواز شریف نے اُنہیں پارٹی کا اُمیدوار نامزد کرنے سے انکار کردیا۔ صاف ظاہر تھا کہ پارٹی قائد اب جاوید ہاشمی کو وہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے جسے ہاشمی صاحب اپنا حق گردانتے تھے گویا، (ن) لیگ میں اُن کی سیاست جمود کا شکار ہونے لگی تھی۔

30 اکتوبر 2011 کے بعد جب ہر سُو پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے چئیرمین عمران خان کا طوطی بولنے لگا تو ایسا لگتا تھا گویا نواز شریف کی ساری مقبولیت یہ سیل رواں اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ جاوید ہاشمی سیاست کی دنیا کا بڑا نام ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے لیے ایک شاندار آپشن تھے، اور پھر اِس قد کے رہنما کی جانب سے پارٹی چھوڑنے سے (ن) لیگ کے کمزور ہونے کا تاثر بھی پیدا ہوتا جو تحریک انصاف کے لیے نہایت اہم سیاسی کامیابی ہوتی۔ اتفاق سے یہ تحریک انصاف اور جاوید ہاشمی کے سیاسی مفادات کا نکتہ اشتراک ثابت ہوا اور پارٹی قیادت سے شاکی جاوید ہاشمی نے (ن) لیگ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا اور اِس حوالے سے پارٹی رہنماؤں، یہاں تک کہ بیگم کلثوم نواز کی درخواست بھی رد کردی۔

تحریک انصاف میں جاوید ہاشمی کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ اُنہیں پارٹی صدر بنا دیا گیا اور 2013 کے عام انتخابات بھی ہاشمی صاحب نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے اور متعدد حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ یہاں جاوید ہاشمی پارٹی صدر تو تھے لیکن اُن کی حیثیت کم و بیش وہی تھی جو صدرِ پاکستان کی ہوتی ہے۔ پارٹی کے تمام معاملات عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے گرد گھومتے اور صدر کا عہدہ صرف ایک نمائشی حیثیت کا حامل تھا۔

درحقیقت یہ اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ تحریک انصاف اول تا آخر عمران خان کے نام پر ہی کھڑی ہے اور اُس میں کسی اور کے لیے مختار ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گو بقول عمران خان وہ اُنہیں ہر مشورے میں شامل رکھتے تھے لیکن جاوید ہاشمی کا دل وہاں سے اکتانے لگا اور 2014 کے دھرنے اور اُس دوران وقوع پذیر ہونے والے چند متنازعہ اقدامات سے جاوید ہاشمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اُنہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پریس کانفرنس کی اور دھرنے کے پسِ منظر کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا، جو تحریک انصاف سے اُن کی علیحدگی کی وجہ بنی۔

مزید پڑھیے: جاوید ہاشمی نے ایک نیا پنڈوراباکس کھول دیا

پھر اُنہوں نے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا۔ تاہم عام توقع کے برعکس اُنہوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی، گوکہ وقتاً فوقتاً اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں کے طفیل وہ (ن) لیگ کی مدد کو ضرور پہنچتے رہے۔ بالخصوص عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف صاحب کی کشمکش کے حوالے سے وہ کافی کھری کھری کہتے رہے۔ اِس بیچ اُنہوں نے اپنی چھوڑی ہوئی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں آزاد حیثیت میں حصہ بھی لیا، مگر (ن) لیگ کی درپردہ حمایت کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔

2014 سے جاری اِس نیم دروں نیم بروں کے بعد بالآخر 4 دسمبر کی سہ پہر جاوید ہاشمی کی (ن) لیگ کے صدر میاں نواز شریف سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی۔ سیاست کی دنیا بڑی پتھر دل ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس گرم جوشی سے میاں نواز شریف نے جاوید ہاشمی کو گلے لگایا اور اُن کا خیرمقدم کیا۔ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اِس سے پہلے اِس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ جاوید ہاشمی کے حلقے سے تعلق رکھنے والے (ن) لیگی عہدیدار اور بلدیاتی نمائندے اُن کی واپسی کے سخت خلاف ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ مخدوم صاحب کی پارٹی میں واپسی بیگم کلثوم نواز کی رضامندی سے مشروط ہے، اگر انہوں نے انکار کردیا تو یہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔

گویا ہاشمی صاحب کے لیے یہ پیغام واضح تھا کہ اُن کی واپسی اب (ن) لیگ نہیں بلکہ خود اُن کی ضرورت اور خواہش ہے۔ بظاہر جاوید ہاشمی کا یہ سیاسی فیصلہ ایک سیاسی مجبوری ہے۔ اُنہیں سیاست میں زندہ رہنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم چاہیے کیونکہ اب وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی طاقت کھو چکے ہیں۔ انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ یہ اُن کے خاندان کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم ہے کہ ایک بڑی پارٹی کا ہاتھ اُن کی پشت پر ہو۔ لیکن دوسری طرف (ن) لیگ کا فائدہ یہ ہے کہ عدلیہ اور فوج کے حوالے سے ہاشمی صاحب کے بیانات اور پریس کانفرنسیں اُسے اور زیادہ باقاعدگی سے میسر رہیں گی۔ جاوید ہاشمی کا اصرار ہے کہ یہ محض ایک ملاقات تھی اور ابھی وہ پارٹی میں واپس نہیں آئے، تاہم کواکب یہی نظر آتے ہیں کہ دل کا ’آنا‘ ٹھہر چکا!

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں