آپ نے اکثر و بیشتر دیکھا ہوگا کہ لوگ اپنی معاشی ضروریات کے تحت کوئی غیر ملکی زبانیں سیکھتے ہیں اور پھر اس زبان کو پیسہ بنانے کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ تاہم دُنیا میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں، جنہوں نے نہ صرف اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی غیرملکی زبان پر دسترس حاصل کی بلکہ دل و جان سے اُس زبان کی ترویج، اور ادب کے فروغ کے لیے اپنی عمریں صرف کردیں۔

ایسی ہی ایک شخصیت جاپان سے تعلق رکھنے والے ’ہیروجی کاتاؤکا‘ کی بھی ہے۔ جاپان کی ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیروجی نے ٹوکیو یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کیا اور اُس کے بعد پاکستان آگئے۔ یہاں آکر اُنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اُردو زبان میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا۔ وطن واپسی کے بعد اُنہوں نے چند برس اوساکا یونیورسٹی اور پھر دائتو بُنکا یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ آج کل وہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور باقاعدگی سے اُردو ادب کو اپنی جاپانی زبان میں ترجمہ کررہے ہیں۔ ہیروجی کاتاؤکا کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح محبت کو بڑھاوا دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

کہتے ہیں ادب کی جڑیں زمین سے جڑی ہوتی ہیں اور ہیروجی کاتاؤکا نے پاکستان اور جاپان دونوں ملکوں کی سرزمین پر ادب کی آبیاری کی اور اُردو کے کلاسیکل ادباء و شعراء کی تصانیف و شاعری کا جاپانی زبان میں ترجمے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ اب تک کئی بڑے شاعروں کا کلام اور متعدد نامور اردو لکھاریوں کے افسانوں کو جاپانی قالب میں ڈھال چکے ہیں۔

پڑھیے: تذکرہ جاپان میں اردو کے متوالوں کا

وہ آج کل کراچی آئے ہوئے ہیں، جہاں وہ 10ویں عالمی اُردو کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس کی مختلف نشستوں کے درمیان آنے والے چائے کے وقفے کے دوران اُن سے گفتگو کا موقعہ ملا۔ مُختصر وقت میں ہونے والی اِس گفتگو میں اُنہوں نے بہت سی باتیں بتائیں، لیکن سوالات سے قبل جب ہم نے اُنہیں ہیروجی کاتاؤ صاحب کہہ کر مُخاطب کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا نام ہیروجی ہے اور وہ کاتاؤکا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جاپانی تہذیب میں کسی فرد کو اس کے خاندان کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے، لہٰذا اُنہیں کتاؤکا کہہ کر مُخاطب کیا جائے۔ اُن سے ہونے والی گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔

سوال: اردو زبان کے لیے بے پناہ خدمات اور پاکستان آکر عالمی اُردو کانفرنس میں شرکت کرکے آپ نے خود کو حقیقتاً اُردو کا مُحسن تسلیم کرا لیا ہے، یہاں آکر آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟

جواب: ابھی میرے یہاں آنے کا واحد مقصد 10ویں عالمی اُردو کانفرنس میں شرکت ہے اور میں یہاں آکر بہت اچھا محسوس کررہا ہوں۔جہاں تک اُردو زبان کی خدمت کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ابھی میں نے بہت کم کام کیا ہے، ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔

پروفیسر ہیروجی کاتاؤکا دسویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے کراچی آئے ہوئے ہیں۔
پروفیسر ہیروجی کاتاؤکا دسویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے کراچی آئے ہوئے ہیں۔

سوال: اردو سے جاپانی زبان میں ترجمے کے لیے صرف شاعری کا انتخاب کیوں کیا؟

جواب: جی نہیں، میں نے صرف شاعری کو جاپانیوں تک نہیں پہنچایا، بلکہ میں نے اُردو افسانوں پر بھی کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جاپان کے لوگ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ تہذیب سے آشنا ہوں اور اردو زبان میں لکھی گئی کہانیاں اور افسانے جاپان میں بھی پڑھے جائیں۔

اردو زبان میں بی اے کرنے کے دوران ہم نے اردو کا بنیادی قاعدہ پڑھا۔ اردو زبان پڑھنے کے قابل ہوا تو آسان اردو کہانیاں پڑھنے کا شوق ہوا۔ دوسرے سال کی تعلیم کے دوران کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیبوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اُن کے افسانوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔

سوال: آپ نے اردو زبان ہی کا انتخاب کیوں کیا، اپنے پڑوسی ملک چین کی زبان کو آپ نے کیوں اس قابل نہیں سمجھا، یا یوں کہیے کہ اردو میں کیا خاص بات آپ نے دیکھی کہ جغرافیائی دوری اور لسانی اجنبیت کے باوجود آپ نے اسے اپنی محبت کے اظہار کا ذریعہ بنایا؟

جواب: دراصل میں یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے جاپان سے بہت دور جانا چاہتا تھا۔ میں نے بہت سی غیرملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے کوشش شروع کی۔ میرے پاس جو داخلہ فارم تھے، ان میں اردو کورس بھی شامل تھا، لیکن مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ زبان کہاں بولی جاتی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اور انڈیا میں بھی بولی جاتی ہے۔ چونکہ جاپان اور کوریا سے پاکستان زیادہ دور ہے اس لیے میں نے اُردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے اردو کے اساتذہ نے بتایا کہ اگر میں اردو سیکھ لوں گا تو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی زبان بھی آسانی سے سمجھ میں آنے لگے گی۔

پڑھیے: جاپان: ایک ملک، ایک کہانی

میں نے جاپان میں ہی ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا۔ ایم اے اُردو کرنے کے بعد مجھے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میں چونکہ گھبرایا ہوا تھا اس لیے اکثر کلاس میں دیر سے آتا اور پچھلی نشستوں پر ہی بیٹھتا تھا۔ یہاں آکر مجھے ایک لڑکی اچھی لگنے لگی اور میں چونکہ اردو زبان بولنے سے قاصر تھا اس لیے خود کو کہانی والا گونگا لڑکا محسوس کرتا تھا۔ جیسے جیسے اردو کی سمجھ آتی گئی میں نے اردو کہانیاں پڑھنی شروع کیں۔ کرشن چندر کو پڑھا اور پھر پڑھتا چلا گیا۔ ان کہانیوں اور افسانوں نے مجھے اردو سے اور زیادہ قریب کردیا۔

سوال: آپ نے اردو زبان سیکھی اور اردو ادب کے بیش قیمتی خزانے کو جاپانی زبان اور جاپانیوں میں روشناس کروایا، لیکن کیا اپنے جاپانی ادب کو اُردو میں ڈھال کر پاکستان اور بھارت کے لوگوں تک پہنچانے کا بھی کوئی ارادہ رکھتے ہیں؟

جواب: بحیثیت جاپانی، اردو کا بہترین ادب اپنی جاپانی قوم تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ وقت ملا تو جاپانی ادب بھی برِصغیر کے لوگوں تک پہنچاؤں گا، فی الحال تو میں علامہ اقبال کا باقی ماندہ کلام بھی جاپانی زبان میں ترجمہ کررہا ہوں۔

سوال: اردو شعراء و ادباء میں ایسی کیا بات دیکھی، جس نے آپ کو اُنہیں جاپانی زبان میں ترجمہ کرنے پر مجبور کیا؟

جواب: جاپانی لوگوں کو یہاں کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ ابھی جاپانیوں کو بہت کچھ جاننا باقی ہے، جو وہ اُردو ادب پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں، مثال کے طور پر غالب پڑھنے سے انسان کے دل کے بارے میں جانا جاسکتا ہے، فیض کی شاعری پڑھ کر آج کل کی سماجیات سے ٹھیک طور پر آگاہی حاصل ہوسکتی ہے۔ غریبوں کا استحصال صرف پاکستان میں نہیں ہوتا، یہ جاپان میں بھی ہوتا ہے، ہندوستان اور دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ جاپان میں استحصال زدہ طبقہ بھی فیض صاحب کی شاعری کو اتنا ہی پسند کرے گا، جتنا پاکستان یا بھارت کے لوگ کرتے ہیں۔ اقبال بھی اپنے وقت میں جنوبی ایشیاء میں انگریز کے قبضے کی بات کرتے ہیں اور اپنی ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ ہمیں ان سب سے سیکھنا چاہیے۔

سوال: پاکستان اور جاپان کے درمیان تعلقات کے فروغ میں کیا چیز اہم کردار ادا کرسکتی ہے؟

جواب: دونوں ممالک کے درمیان ابھی تجارتی رشتہ ہے۔ ہم اردو سے کہانیاں اور شاعری کو جاپانی زبان میں ترجمہ کررہے ہیں، یہ سب کچھ پڑھ کر جاپانیوں کو پاکستان اور اردو کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوگا۔ جاپان میں اردو افسانہ شایع کرنے کے لیے کوئی بڑا رسالہ نہیں، اس کے لیے ہم جاپانیوں کو کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہاں کی ثقافت اور ماحول جاننے کے لیے مشاعرہ بہت اہم ہے۔

میں نے جاپان میں مشاعرہ کروایا۔ اس وقت وہاں جاپان میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت نے مشاعرے میں شرکت کی۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات درست ہیں، تاہم باہمی ثقافتی تعلق قائم کرنے سے دوستی کا تعلق نہ صرف بڑھتا ہے، بلکہ مزید مضبوط بھی ہوتا ہے، اس لیے باہمی طور پر اس قسم کی سرگرمیوں کی بہت ضرورت ہے۔ ساتھ ہی جاپانی افسانوں، ناولوں اور شاعری کا اردو ترجمہ بھی پاکستانیوں تک پہنچانا ہوگا، تبھی ہم یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔

سوال: جاپانی شاعری میں ہائیکو کے علاوہ کون کون سی اصنافِ سخن ہیں اور ان کا موازنہ اردو کی کن اصناف سے کیا جاسکتا ہے؟

جواب: پاکستان میں ہائیکو ایک معروف صنفِ سخن ہے اور اس پر یہاں کے شعراء نے کافی کام کیا ہے، لیکن ہائیکو ایک مختصر صنفِ سخن ہے۔ پاکستان میں غزل کا اپنا رنگ ہے۔ دونوں معمولی فرق سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہائیکو سے تھوڑی سی بڑی، یعنی پانچ سات پانچ سات سات لائینوں پر مشمل شاعری کی ایک اور صنف بھی ہے، جو اردو غزل سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔ اس صنف کو ’تانکا‘ کہتے ہیں، جس طرح غزل کے اشعار میں گہرائی پائی جاتی ہے، اسی طرح تانکا میں بھی گہرائی اور تہہ دار بات کی جاتی ہے۔

سوال: آپ پاکستان کے شعراء و ادباء کو کیا مشورہ دیں گے، اُنہیں کن جاپانی شاعروں اور ادیبوں کو پڑھنا چاہیے؟

جواب: یہ تو کافی مشکل سوال ہے، چونکہ ہر شخص کی پسند اور ناپسند یا ذہنی معیار مختلف ہوتا ہے اس لیے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا، لیکن ’دازایو سامو‘ کو جاپانی نوجوان طبقہ بہت پسند کرتا ہے۔ دازایو سامو غریب یا استحصال زدہ طبقے کے مسائل کو اپنے افسانوں اور ناول کا موضوع بناتے ہیں۔ چونکہ جاپانی لوگ کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے بارے میں لکھی ہوئی تحریریں پسند کرتے ہیں، اس لیے اُنہیں بہت پذیرائی ملتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہاں کے لوگ دازایو صاحب کو پڑھیں گے تو اُنہیں اچھا لگے گا۔

سوال: یہاں سے جاپانی دوستوں کے لیے کیا پیغام لے کر جارہے ہیں؟

جواب: یہاں بھی میں غالب کا وہ شعر دہرانا چاہوں گا جس شعر کو جاپانی زبان میں ترجمہ کرکے وہاں کے نوجوانوں کو سناتا ہوں کہ

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب

کہ لگائے نہ لگے، بعد بجھائے نہ بنے

میں اُنہیں کہتا ہوں کہ آپ ابھی نوجوان ہیں، محبت کیجیے اور محبت بانٹیے۔ یہی میرا پیغام ہے اپنے ہم وطنوں کے لیے جو میں نے اردو زبان سے سیکھا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں