گزشتہ صدی میں ایشیا کے جن ممالک نے زبردست ترقی کی، اس میں جاپان سرفہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے 1906 میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں جاپان کو ایشیا کے ابھرتے ہوئے ستارے سے تعبیر کیا تھا۔ وقت نے اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کی۔

یہ وہی وقت تھا جب جاپان دنیا بھر کی زبانوں اور علوم کو سیکھنے کے لیے کوشاں تھا۔ ان زبانوں میں اردو زبان بھی شامل تھی۔ جاپان میں اردو زبان کی ابتدائی تعلیم کا مرکز دو بڑے شہر ٹوکیو اور اوساکا رہے ہیں۔

عہدِ حاضر میں ان دونوں شہروں کی جامعات کے علاوہ دائتوبنکا یونیورسٹی، جاپانی ادارہ برائے بین الاقوامی تعاون جائیکا کا تربیتی مرکز، اور جاپان کے عوامی نشریاتی ادارے ’’این ایچ کے‘‘ کی اردو نشریات نے بھی جاپان میں اردو زبان کی نشو و نما میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

تاریخ کے اوراق کا پلٹ کر جائزہ لیں تو پاکستان اور جاپان کے مابین اولین تہذیبی تعلق گندھارا تہذیب کے ذریعے بنتا ہے۔ گندھارا کا علاقہ پانچویں صدی قبلِ از مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک بدھ مت کا اہم مرکز بن چکا تھا۔

بدھ مت یہیں سے فروغ پا کر چین کے راستے جاپان اور دیگر ممالک تک پہنچا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد، گندھارا تہذیب کا خطہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ آج بھی پوری دنیا سے سیاح گندھارا تہذیب کے آثار قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

اردو کا اولین مرکز، ٹوکیو

باقاعدہ طور پر 1908 میں تدریس کی غرض سے ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کی بنیاد رکھی گئی جس میں دنیا بھر کی زبانوں سمیت اردو کی تعلیم کے لیے ’شعبہءِ ہندوستانی‘ قائم ہوا۔

ابتداء میں ایک برس کی نصابی جماعت شروع کی گئی، جس میں داخلہ لینے والے جاپانی طلبا کی تعداد پانچ تھی۔ 1911 میں شعبہ ہندوستانی کو ترقی دی گئی اور جماعت کا نصاب تین برس کے عرصے پر مشتمل ہوگیا۔

شعبہ ہندوستانی کے پہلے مہمان استاد مولانا برکت اللہ تھے جو خود ایک انقلابی حیثیت کے حامل تھے اور معروف علمی شخصیت محمود الحسن کے کہنے پر جاپان تدریس کی غرض سے آئے۔ بقول پروفیسر تاکیشی سوزوکی "مولانا برکت اللہ ہی حقیقی معنوں میں جاپان میں اردو تدریس کے بانی کہلانے کے مستحق ہیں۔"

جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبہ ہندوستانی کے اولین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے۔ ان کے بعد پھر نمایاں استاد پروفیسر ریچی گامو کا ہے، جن کا 1925 میں باقاعدہ طور پر جاپانی پروفیسر کی حیثیت سے شعبہ اردو کے لیے تقرر ہوا۔

1936 میں وہ علمی اغراض و مقاصد سے ہندوستان بھی تشریف لائے۔ یہ قیامِ پاکستان سے قبل کی بات ہے۔ پروفیسر گامو نے اردو زبان کے قواعد، مختلف کلاسیکی اردو ادب کے فن پاروں کے جاپانی تراجم سمیت، جن میں اردو کی کلاسیکی داستان ’باغ و بہار‘ شامل ہے، دیگر کئی اہم کام کیے جن کی وجہ سے اہلِ جاپان اردو زبان و ادب سے روشناس ہوئے۔ جاپان میں پروفیسر گامو کو قبل ازتقسیم کے عہد کا 'بابائے اردو' کہا جاتا ہے۔

1947 میں برِصغیر کی تقسیم کے بعد شعبہ ہندوستانی تبدیل ہو کر شعبہ اردو ہوگیا۔ 1949 میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کا درجہ بھی بڑھ گیا اور اس کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا، جس میں شعبہ ہندوستانی، دو مختلف شعبوں، شعبہ ہندی اور شعبہ اردو میں تقسیم کر دیا گیا۔

ان شعبہ جات میں ہندوستان سے مہمان اساتذہ کے طور پر اردو زبان کے اساتذہ کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ جاپانی اساتذہ بھی اردو زبان کے فروغ میں شامل رہے۔

پروفیسر گامو کے بعد قابلِ ذکر جاپانی استاد پروفیسر تاکیشی سوزوکی ہیں جن کو ہم پاکستان کی تقسیم کے بعد اردو زبان کی تدریس کے فروغ کے لیے سب سے اہم شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔ انہوں نے پہلی باقاعدہ جاپانی اردو لغت پر کام کیا اور اس سلسلے میں متعدد بار پاکستان تشریف لائے اور یہاں کے علمی و تدریسی حلقوں سے بھی رابطہ قائم رکھا۔

ایک طویل عرصے تک وہ جاپان میں اردو زبان کی تدریس اور فروغ کے لیے کوشاں رہے، اس لیے قیام پاکستان کے فوری بعد کے دور کے لیے ان کو جاپان کے بابائے اردو کا درجہ دیا جاتا ہے۔

عہدِ حاضر میں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر ہیروشی ہاگیتا ہیں، جنہوں نے اردو زبان کی تعلیم اوریئنٹل کالج لاہور سے حاصل کی اور متعدد بار علمی مقاصد کے لیے پاکستان کے دورے بھی کیے۔

بحیثتِ مدیر جاپانی زبان میں اردو ادب کے حوالے سے ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں جس میں پاکستان کے تمام نامور ادیبوں کی تخلیقات کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ پروفیسر ہاگیتا ذاتی طور پر سعادت حسن منٹو سے بہت متاثر ہیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی زبان کے حوالے سے کئی تراجم کیے جو کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔

اسی شعبے کے دو اساتذہ پروفیسر اسادا اور پروفیسر مامیاکین ساکو ہیں جو اردو زبان کے فروغ کے لیے تدریسی عمل کے ذریعے کوشاں ہیں۔ پروفیسر اسادا نے پروفیسر تاکیشی سوزوکی کی رہنمائی میں جاپانی اردو لغت پر بھی کام کیا ہے جبکہ پروفیسر مامیاکین نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ سندھی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ وہ بھی اردو زبان کے حوالے سے خاصے سرگرم ہیں اور علمی مقاصد کی غرض سے اکثر پاکستان تشریف لاتے ہیں۔

یہ تمام اساتذہ اردو زبان اور ادب کے تراجم جاپانی زبان میں کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرت، لسانیات اور ادب کے تناظر میں تحقیقی مقالے بھی لکھتے رہتے ہیں۔

اردو کا دوسرا مرکز, اوساکا

اوساکا میں 1921 میں اوساکا اسکول آف فارن لینگویجز کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر 1944 میں کالج بنا اور 1945 میں اس نے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔ ابتدائی زمانے میں یہاں پر اردو زبان و ادب کی تدریس میں سرگرم فعال شخصیت پروفیسرساوا تھے۔ 1961 تک شعبہ اردو میں فعال رہے، یہاں سے فراغت کے بعد پاکستان آ کر لاہور کے اوریئنٹل کالج میں جاپانی زبان کا شعبہ بھی قائم کیا۔

اس تمام عرصے میں انہوں نے اسلامی علوم کے علاوہ اردو زبان کے قواعد سمیت علامہ اقبال کی شاعری اور دیگر اہم تصنیفات کے جاپانی تراجم کیے، اسی وجہ سے ان کو بھی جاپان میں اردو زبان کے فروغ کے لیے ابتدائی کوششیں کرنے کی طویل خدمات کے تناظر میں بابائے اردو کہا جاتا ہے۔

پروفیسر ساوا کے بعد دیگر قابل ذکر اساتذہ میں پروفیسر جین نمایاں ہیں، جنہوں نے اردو زبان سیکھنے کی غرض سے لاہور میں اس وقت قیام کیا جب ہندوستان غیرمنقسم تھا اور تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔

انہوں نے قائد اعظم، علی برادران اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی براہ راست تقریریں بھی سنیں اور جلسوں میں بھی شریک رہے۔ ان کے بعد پروفیسر ہیروشی کان کاگایا ہیں، جنہوں نے اوساکا یونیورسٹی آف فارن لینگویجز کے لیے طویل خدمات انجام دیں۔

سب سے بڑھ کر خدمت جاپانی اردو زبان کی لغت تیار کرنی تھی، جس کے لیے انہوں نے تیس برس سے زیادہ کا عرصہ صرف کیا اور اپنے اس علمی ہدف کو طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کام میں ان کے ساتھ مہمان استاد کے طور پر وہاں جانے والے پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری بھی تھے۔ اس شعبے کے دیگر جاپانی اساتذہ میں شامل دیگر ناموں میں پروفیسر تسونیو ہماگچی نمایاں ہیں۔

عہدِ حاضر میں شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر میتسومورا ہیں جنہوں نے اوریئنٹل کالج لاہور سے اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ایک طویل عرصے سے وہ شعبہ اردو میں بحیثیت استاد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اردو کے کلاسیکی شاعر میر تقی میر سے ان کو خاص لگاؤ ہے۔ وہ اس شاعر کا ایک انتخاب، جاپانی زبان میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں جو جاپان سے شایع بھی ہوگیا ہے۔

ان کے بعد شعبہ اردو کے استاد پروفیسر سویامانے ہیں جنہوں نے نہ صرف لاہور میں اوریئنٹل کالج سے اردو کی تعلیم حاصل کی، بلکہ وہ اسلام آباد میں قائم جاپانی سفارت خانے سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔ باقاعدگی سے پاکستان آتے ہیں۔ اردو اور پنجابی زبان لکھنے اور بولنے پر مکمل عبور حاصل ہے۔

پروفیسر سوبامانے اردو ادب کے متعدد ادیبوں کے جاپانی زبان میں تراجم کرچکے ہیں اور اردو زبان میں بھی کئی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں، جن میں سرفہرست مقالہ معروف افسانہ نگار غلام عباس پر ہے، جو انہوں نے معروف محقق اور نقاد مشفق خواجہ کی معاونت سے مکمل کیا۔ ان کے طرزِ زندگی میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

ایک اور پروفیسر کتادا بھی اسی شعبے سے وابستہ ہیں، جو اردو زبان کے علاوہ پنجابی، فارسی، عربی، جرمن اور سنسکرت پر عبور رکھتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں اردو اور پنجابی زبانوں کی بود و باش پر گہری نظر ہے۔ ہیر وارث شاہ کے فن پارے سے متاثر ہیں۔ وہ بھی کئی بار پاکستان آچکے ہیں، بالخصوص پنجاب کی ثقافت کے حوالے سے ان کی تحقیقی دلچسپیاں بے پناہ ہیں، جن کا مظاہرہ وہ اپنے مقالوں میں کرتے رہتے ہیں۔

اردو کے دیگر ذیلی مراکز

جاپان میں اردو کے دیگر ذیلی مراکز میں سائی تاما میں قائم یونیورسٹی دائتوبنکا سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ کیوٹو یونیورسٹی میں بھی اردو زبان کی تدریس کا محدود دائرہ کار موجود ہے، جہاں سوناگاایمیکو اردو زبان کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ اوساکا میں ہی ایک اور جامعہ اوتے مون گاکوین میں بھی اردو کی محدود تدریس فراہم کی جاتی رہی ہے۔

اسی طرح جائیکا کے تربیتی مرکز نیہون ماتسو کے ذریعے بھی اردوزبان کا تدریسی عمل شروع کیا گیا جو بعد میں موقوف ہوگیا۔ ان سب مراکز میں مستقل بنیادوں پر اردو زبان کی تدریس کا عمل بحال رکھنے میں دائتوبنکا یونیورسٹی سرفہرست ہے جس کی وجہ پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہیں۔

پروفیسر ہیروجی کتاؤکا کی اردو زبان کے لیے خدمات کا دائرہ 40 برس کے لگ بھگ ہے۔ وہ پروفیسر تاکیشی سوزوکی کے شاگرد رہے ہیں۔ انہوں نے ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز اور اوساکا یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں بھی استاد کی حیثیت سے پڑھایا۔ 60 کی دہائی میں پاکستان میں جامعہ کراچی سے اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ جاپان کے تمام اردو کے تدریسی مراکز سے وابستہ رہے۔ تدریسی عمل کے علاوہ انہوں نے تراجم کا وسیع کام کیا۔

مرزا اسداللہ خاں غالب اور فیض احمد فیض کو مکمل طور پر جاپانی زبان میں ترجمے کے ذریعے منتقل کر چکے ہیں، جبکہ علامہ اقبال کی شاعری کا نوے فیصد ترجمہ جاپانی زبان میں کرچکے ہیں اور باقی دس فیصد پر کام جاری ہے۔

اس کے علاوہ کئی معروف ادیبوں کی کہانیوں اورناولوں کے تراجم بھی ان کے نام پر موجود ہیں جن میں سرفہرست سعادت حسن منٹو اور انتظار حسین کی کہانیوں کے منتخب تراجم، شوکت صدیقی کا ناول ’خدا کی بستی‘ اور کئی تخلیقات کے تراجم ہیں، جن کی تکمیل میں یہ اپنی آدھی سے زیادہ زندگی صرف کرچکے ہیں۔

جاپان کے عوامی ریڈیو 'این ایچ کے‘ کی اردو سروس

جاپان میں ہی اردو زبان کی نشونما کا ایک اہم مرکز، جاپان کے عوامی نشریاتی ادارے ریڈیو این ایچ کے کی اردو سروس ہے۔ اس ریڈیو کے ذریعے دیگر 16 زبانوں میں نشریات مہیا کی جاتی ہیں، جن میں اردو بھی شامل ہے۔

ریڈیو پاکستان سے مہمان براڈکاسٹر کے طور پر بھی کئی پاکستانیوں کو اب تک مدعو کیا جا چکا ہے، جبکہ ایک بہت بڑی تعداد جاپانیوں کی بھی ہے جو اس زبان کی سروس سے منسلک رہے ہیں۔ این ایچ کے نے اردو زبان سیکھنے کے لیے بنیادی اصولوں کے مطابق ایک کتابچہ بھی تیار کر رکھا ہے جس کے ذریعے بنیادی زبان سیکھی جاسکتی ہے۔

جاپان میں اردو زبان کا مستقبل

اردو زبان کے مستقبل پر کوئی کچھ کہتا رہے، مگر جاپان میں اردو زبان کا مستقبل روشن ہے۔ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز، اوساکا یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز اور دائتوبنکا یونیورسٹی میں اردو کی شمع روشن ہے، جس کے گرد، ہرسال پندرہ بیس طالب علم پروانے جمع ہوجاتے ہیں۔

ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرگیا مگر پروفیسر گامو سے لے کر پروفیسر کتاؤکا تک جنون کا یہ سفر جاری ہے۔

110 برس میں سینکڑوں جاپانی اساتذہ اور اردو زبان بولنے والوں نے اس کے فروغ اور نشونما میں اپناحصہ ڈالا۔ ان تمام جاپانیوں کی علمی خدمات کے صلے میں ہم پاکستانی ہمیشہ ان کے ممنون رہیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 23, 2017 06:04pm
پاکستان میں جاپانی زبان سیکھنےسکھانے کے متعلق کیا ہورہا ہے، کسی کو کچھ معلوم ہے؟ خیرخواہ