کراچی: چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے ساتھ قرض دہندہ کی شرائط بھی ساتھ آتی ہیں جو ملکی خودمختاری پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کی بقاء اور ترقی کے لیے ملکی ذخائر کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور مثبت مسابقت کا ماحول بنا نے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) میں 41ویں ایکسپورٹ ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے واضح کیا کہ ‘اگر برآمدات اور بیرونی قرضوں کے درمیان ایک انتخاب رکھنا ہو تو ہماری ترجیح برآمداد ہونی چاہیے تاکہ ملکی خودمختاری کا تحفظ ممکن ہو سکے’۔

یہ پڑھیں: معیشت پر آرمی چیف کے بیان پر تنقید ’بے بنیاد‘، ایف پی سی سی آئی

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کہ بیرونی قرضے لینا نسبتاً آسان ہے لیکن قرضوں کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو اصل رقم کے ساتھ سود کی ادائیگی کرنے میں شدید مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

غیرملکی قرضوں کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ عالمی قرضوں کے ساتھ جوڑی ایسی شرائط بھی نفاذ ہوتی ہیں جس سے پورے ملک کی خودمختاری کو دھچکا لگتا ہے، قرض دہندہ ہمارے انتظامی نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

سینیٹ چیئرمین نے کہا کہ ‘پاکستان نے قرض لینے کے عمل میں خودمختاری کا کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان معاشی بحران سے باہر نکل چکا: آئی ایم ایف چیف

صنعت کار افتخار علی ملک کے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کی تشکیل سے متعلق سوال پر میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ ایوان بالا کی متعلقہ قائمہ کمیٹی سے اس بابت دریافت کریں گے اور حکومت سے بورڈ کی شکیل کا مسئلہ اٹھائیں گے۔

شکایت کنندہ افتخارعلی نے اپنے سوال میں کہا تھا کہ حکومت نے غیر موثر ای ڈی بی بنائی جس کی وجہ سے مقامی آٹو وینڈرز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو درآمدات کے فروغ کے لیے پالیسوں اور اداروں میں توازن اور جدیدیت کو فروغ دے کر ‘بیمار صنعت’ کو زندہ کرنا ہوگا۔

ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے خدشات کا اظہار کرتےہوئے کہاکہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی اشیاء درآمدات 20 ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم 52 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔

مزید پڑھیں: بے روزگار نوجوان پنجاب کی معیشت کے لیے بڑا چیلنج

انہوں نے واضح کیا کہ مذکورہ حالات میں معاشی بحران میں تنزلی ہو گی کیوں کہ 30 جون 2018 تک برآمدات کا کم تخمینہ 60 ارب ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی ہے اور اس کے مقابلے میں درآمدات صرف 24 ارب ڈالر تک محدود رہے گی ۔

معیشت کے سکڑاؤ کے حوالے ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر ایس ایم منیر نے کہا کہ جب تک پاکستان کے ایکسپورٹرز کو صنعتی میدان میں اپنی صلاحیت دکھانے کاموقع نہیں ملے گا معشیت بحرانی کیفیت سے دوچار رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ کاروبار کے لیے وسیع سرمایہ نے ایکسپورٹ سیکٹر کو کمزور کردیا ہے اور اسی سبب صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہے ۔


یہ خبر 27 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں