’قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہر شخص کا محاسبہ کیا جائے گا‘

شائع January 25, 2018

سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) اللہ ڈنو خواجہ نے کہا ہے کہ قانون کا احترام نہ صرف عوام بلکہ پولیس پر بھی لازم ہے اور اگر کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا تو قانون کے مطابق اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔

نقیب اللہ محسود کیس کے حوالے سے محسود قبائل کے عمائدین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کیس کی تفتیش کو تمام پہلوؤں اور زاویوں سے انتہائی شفاف اور غیر جانبدار بناتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائیگا۔

قبائلی عمائدین کے وفد نے رحمت خان محسود کی سربراہی میں آئی جی سندھ سے ملاقات کی ، اس موقع پر ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان اور پی ایس او ٹو آئی جی سندھ سید سلمان حسین بھی موجود تھے۔

قبائلی عمائدین کے وفد نے تحقیقاتی کمیٹی اور اس کے ارکان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ نقیب اللہ محسود پولیس مقابلے کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی کی غیر جانبدارنہ اور شفاف انکوائری جیسے اقدامات پر ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: نقیب قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ایسے اقدامات سے نہ صرف انصاف کا بول بالا ہوگا بلکہ محکمہ پولیس کا مورال بھی بلند ہوگا۔

آئی جی سندھ نے وفد سے کہا کہ پولیس عوام کے تحفظ جیسے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں شب وروز مصروف عمل ہے اور قانون کا احترام ناصرف عوام بلکہ پولیس پر بھی لازم ہے۔

راؤ انوار کا حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ

دوسری جانب معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بھی تحقیقاتی کمیٹی پر الزامات لگاتے ہوئے حساس اداروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی ) بنانے کا مطالبہ کردیا۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج مقدمہ درج کروانے والے کچھ افسران مجھ سے ذاتی بغض رکھتے ہیں اور نقیب اللہ کے گھر والوں کو پولیس کے کچھ افسران گمراہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک پروفیشنل اور اصول پسند پولیس افسر ہوں، یہ تاثر درست نہیں کہ میں نے ذاتی حیثیت میں کوئی مقابلہ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو افسران میرے خلاف بیان دے رہے ہیں ان کے ہاتھ بھی صاف نہیں، میرے پاس ان کے خلاف متعدد ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

راؤ انوار نے سوال کیا ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے آج تک کتنے کامیاب آپریشن کیے ہیں؟ سی ٹی ڈی سے ہونے والے پولیس مقابلوں میں آج تک کتنے اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں؟

سابق ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ دہشت گردوں کے ماورائے عدالت قتل کا فیصلہ سرکاری اجلاس میں کیا گیا تھا، اگر جھوٹے مقدمات بنائے جائیں گے تو قاتل بچ جائیں گے۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی بے گناہ ہیں جبکہ ان پر قائم کیا گیا قتل کا مقدمہ جھوٹا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے پاس مخالف پولیس افسران کی بداعمالیوں کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور یہ شواہد وقت آنے پر سب کے سامنے لاؤں گا۔

ملک سے فرار ہونے کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک سے فرار نہیں ہورہے، اہل خانہ سے ملاقات کے لیے جانا کوئی جرم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی مشیر ان کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا جائزہ لے رہیں ہیں اور وہ جلد عدالتوں میں خود پیش ہوں گے۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس کیس: راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں نقیب اللہ کے کزن نے اس دعویٰ کی ترتید کی تھی اور معاملہ سوشل میڈیا پر اجاگر ہوا تھا، جس کے بعد وزیر داخلہ اور بلاول بھٹو نے نوٹس لیا تھا اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی جبکہ چیف جسٹس نے بھی اس واقعے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی تفتیش میں یہ واضح ہوا تھا کہ نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا، جس کے بعد آئی جی سندھ نے اے ڈی خواجہ کو معطل کردیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anar Jan 26, 2018 03:50am
keh rahe hai her shaksh ka muhasba kiya "jai ga". saval hai kab tak wo kam kiya jai ga. KAYAMAT K ROZ TAK.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025