قصور میں پانچ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کرنے کے الزام میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نوجوان مدثر کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے حکم پر پولیس نے اپنے پانچ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔

ماورائے عدالت قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان میں سب انسپکٹر (ایس آئی) محمد علی، اسسٹنٹ ایس آئیز محمد شریف اور تنویر احمد اور کانسٹیبلز خالد محمود اور امجد علی شامل ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے گزشتہ روز مجسٹریٹ کے سامنے اس کیس کی دوبارہ تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالت سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس پہلے ہی اس بات کے اختیارات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: ریپ کا الزام: مقابلے میں ہلاک نوجوان کا کیس دوبارہ کھولنے کا فیصلہ

اس کے علاوہ نوجوان مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی کی جانب سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر علی نثار رضوی اور ایس ایچ او قصور سردار یونس ڈوگر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے تحریری درخواست بھی جمع کرادی گئی۔

جمال بی بی کی جانب سے اپنی تحریری درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ پولیس ان کے دوسرے بیٹے اور پوتے کو لے گئی تھی اور دھمکی دی تھی کہ اگر اس واقعے کے حوالے سے کوئی احتجاج یا قانونی کارروائی کی گئی تو انہیں قتل کردیا جائے گا۔

تاہم پولیس کی جانب سے اس معاملے کو روایتی مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، پولیس کا موقف ہے کہ 24 فروری کو فیروزپور روڈ پر بھالو سوا کے مقام پر پولیس کی پکٹ پر مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی، جس کے بعد خارا بائی پاس پر پولیس اور مسلح ملزمان کے خلاف فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں اپنے ساتھی کی گولی لگنے سے مدثر زخمی ہوگیا تھا جبکہ اس کے دیگر ساتھی فراد ہوگئے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مدثر نے مرنے سے قبل اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس نے قصور میں علی پارک کے علاقے میں ایک کمسن بچی کا ریپ کے بعد قتل کیا۔

پولیس کے ان الزامات پر ماورائے عدالت قتل کیے گئے مدثر کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے ریپ کے الزام کی تصدیق کے لیے کسی طرح کا ڈی این اے نہیں لیا اور چند افراد کو خوش کرنے کے لیے اسے قتل کردیا۔

خیال رہے کہ مدثر کے قتل کے بعد ان کی بیوہ، 2 سالہ بچے سمیت تمام اہل خانہ کو علی پارک کے علاقے سے 30 کلو میٹر دور منڈی عثمان والا منتقل ہونا پڑا تھا کیونکہ اس علاقے کے رہائشیوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا تھا۔

اس بارے میں مدثر کی والدہ نے ڈان کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد لوگوں میں سخت نفرت پیدا ہوگئی تھی اور انہوں نے مدثر کی نماز جنازہ کا بھی بائیکاٹ کردیا تھا جبکہ پولیس مدثر کی لاش کو لے گئی تھی۔

پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کیے گئے مدثر کے بھائی محمد عدنان نے ڈان کو بتایا کہ قصور کی زینب کی طرح ان کا 2 سالہ بھتیجا عبداللہ بھی انصاف کا منتظر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملزم عمران کی گرفتاری اور ڈی این اے میچ ہونے کے بعد مدثر کے خون کو انصاف ملنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ایمان ریپ کیس: 'پولیس کی جانب سے قتل کیا گیا ملزم بے گناہ ہے'

مقتول مدثر کے بھائی کا کہنا تھا کہ علی پارک کی متاثرہ لڑکی کے والد نے بھی کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مدثر نہیں عمران ان کی بیٹی کا قاتل تھا جبکہ ہمیں ڈی این اے کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

خیال رہے کہ 22 سالہ مدثر کو گزشتہ برس مبینہ طور پر ایک کمسن بچی کے ساتھ ریپ اور قتل کے الزم میں گرفتار کیا گیا تھا، جسے بعد ازاں 24 فروری کو پولیس انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ مدثر کو اسی دن ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جس دن علی پارک کی رہائشی لڑکی کی لاش ایک زیر تعمیر گھر سے ملی تھی۔


یہ خبر 30 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں