ڈھاکہ: بنگلہ دیش پولیس نے ملک کی سابق وزیراعظم اور موجودہ اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کے خلاف بدغنوانی کے مقدمے کے فیصلہ سے قبل ہی ممکنہ مظاہروں پر پابندی لگا دی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے خالدہ ضیاء کی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہزاروں کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا۔

واضح رہے کہ اگر 72 سالہ سیاسی رہنما پر 2 کھرب 52 ارب ڈالر کی بدعنوانی کا الزام ثابت ہوا تو انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

یہ پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا

بی این پی کے ترجمان نے بتایا کہ خالدہ ضیاء سے متعلق عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے ملک گیر کریک ڈاؤن میں پارٹی کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔

ڈھاکہ میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا تھا کہ اگر خالدہ ضیاء مجرم ثابت ہوتی ہیں تو خدشہ ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے کارکن ‘ہنگامہ آرائی’ کریں گے۔

دوسری جانب پارٹی حکام کا موقف تھا کہ ان کے دو سابق وزراء اعظم کے خلاف تمام الزامات سیاسی مقدمات ہیں۔

ڈھاکہ کے سینئر پولیس افسر اسد الزماں میاں نے ایک اعلامیے میں کہا کہ ‘میں اعلان کرتا ہوں کہ سڑکوں پر کسی بھی نوعیت کے احتجاج کی اجازت نہیں جس سے عوامی گزرگاہ متاثر ہو یا گاڑیوں کی نقل و حرکت متاثر ہو’۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے 6 رہنماؤں کو سزائے موت

بی این پی کے ترجمان راہول کبیر رضوی نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے اپوزیشن ورکرز اور ہمدردوں کے گھروں اور آفس میں گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

انہوں بتایا کہ ‘حکومت ملک کو ریاست پولیس میں تبدیل کررہی ہے اور 30 جنوری سے تاحال 12 سو افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، حکومت لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے ان سے احتجاج کا بنیادی حق بھی چھین رہی ہے’۔

دوسری جانب پولیس نے گرفتار شدہ افراد کی تعداد کے حوالے سے تصدیق نہیں کی۔

بنگلہ دیشی اخبار 'پروتھوم الو'' کے مطابق 11 سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا تاہم صرف گزشتہ روز 431 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما کو پھانسی

خیال رہے کہ خالدہ ضیاء کی بی این پی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے 2014 سے 2015 میں ہونے والے سیاسی احتجاج میں تقریباً 200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

خالدہ ضیاء پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں وہ رواں برس انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔

بی این پی نے 2014 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا تاہم کہا جارہا ہے کہ وہ اب انتخابات میں حصہ لے گی۔


یہ خبر 07 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں