جہاں گزشتہ ماہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل نے جھوٹے مقابلوں کے قابلِ مذمت عمل پر قوم کا ضمیر جھنجھوڑ دیا ہے، وہاں اس پورے افسوسناک واقعے کے مرکزی کرداروں میں سے ایک، مفرور پولیس افسر راؤ انوار اب بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ راؤ انوار کو 23 جنوری کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر دیکھا گیا تھا جب وہ اسلام آباد سے دبئی جانے والی فلائٹ میں سوار ہو رہے تھے، مگر انہیں امیگریشن حکام نے روک دیا تھا۔

تب سے لے کر اب تک مفرور افسر کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کے لیے ڈیڈلائن بھی دے رکھی ہے، اور انٹیلیجینس اداروں اور ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ انہیں پکڑنے میں سندھ پولیس کی مدد کریں۔

منگل کے روز سندھ پولیس کی ایک ٹیم اسلام آباد ایئرپورٹ کے حکام اور ملازمین سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچی تاکہ معطل ہوچکے پولیس افسر کو تلاش کیا جا سکے۔ یہ کراچی سے اس کیس کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت آنے والی دوسری پولیس ٹیم ہے۔

یہ انتہائی پریشان کن امر ہے کہ آج کے دور میں بھی اس قدر مطلوب شخص قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔

اس حوالے سے سنجیدہ سوالات پوچھنے چاہیئں کہ راؤ انوار فلائٹ میں چڑھنے سے روکے جانے کے بعد ایئرپورٹ سے کیسے فرار ہو پائے، اور تب سے لے کر اب تک وہ کہاں ہیں؟ یہ تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ اگر راؤ انوار اسلام آباد میں ہیں، جسے ملک کے محفوظ ترین علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، تو وہ اس شہر میں روپوش کیسے ہیں؟

سیکیورٹی فورسز کو انہیں تلاش کرنے کی اپنی کوششوں میں تیزی لانی ہوگی۔ یہ اس لیے اہم ہے تاکہ نقیب اللہ کی بے گناہ ہلاکت میں ملوث افراد پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دی جا سکے۔ ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر جھوٹے مقابلوں میں ملوث رہنے والے پولیس اہلکاروں کو سخت پیغام جائے گا۔ محسود قبائلی جرگے نے اس منگل کو وزیرِ اعظم سے ملاقات میں راؤ انوار کی گرفتاری کے اپنے مطالبے کو دہرایا ہے۔

ریاست کو نقیب اللہ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ اور اس مقصد کے لیے پہلا قدم مرکزی ملزم کی گرفتاری ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 8 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں