اسے اتفاق کہیں یا میری شاندار اینٹری، فاطمہ ثریا بجیا سے میری پہلی ملاقات یکم ستمبر یعنی ان کی سالگرہ والے دن ہوئی۔

کراچی کے مشہور ہل پارک کے قریب بہار مسلم سوسائٹی میں واقع وہ کارنر کا ڈبل اسٹوری گھر سبزے اور پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ گھر کے اندر باہر سے بھی زیادہ پھول تھے۔ بجیا اپنے بیک وقت ڈرائنگ روم، بیڈ روم، اسٹڈی روم یعنی تمام کاموں کے لیے مختص روم میں اپنی رائٹنگ ٹیبل کے سامنے لگے گدے پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھیں۔

روئی جیسے سفید بال اوپر سے سفید ساڑھی کا امتزاج بڑا رعب دار سا لگ رہا تھا۔ بجیا نے مجھے جھٹ سے اپنا کیریئر اور خاندانی پس منظر بتایا اور اپنی سالگرہ کے کیک سے میری تواضع کی۔ شاید بجیا کو لگا تھا کہ میں بھی اوروں کی طرح ایک آدھ گھنٹے کا انٹرویو کرکے چلتی بنوں گی۔

مگر ایسا ہرگز نہ ہوا، کیونکہ اس ملاقات کے بعد وہ گھر اگلے 6 سال تک میرا مسکن رہا۔

22 سال سے بجیا کے گھر کی ہنگامہ خیزی سنبھالنے والا ملازم عبدالوہاب، میں اور بجیا، ہم تینوں نے ان 6 سالوں میں بہت کچھ دیکھا، خاص طور پر بجیا کی گرتی صحت اور روز بروز بلند ہوتے حوصلے۔

پڑھیے: بجیا: ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں

اب تو کراچی میں سکون ہے مگر ان دنوں عروس البلاد کا امن غارت تھا۔ آئے روز کی ہڑتال اور ہنگاموں سے خود بجیا بھی تنگ تھیں۔ ایک دن مجھے ساتھ لیا اور بہادر آباد سے سفید لٹھے کا بڑا سارا تھان خرید لائیں۔ گاڑی میں بیٹھہ کر مجھے سمجھاتی جاتیں کہ بس تم دیکھنا اب میں اس سفید لٹھے کے تھان سے امن کے جھنڈے سلواؤں گی اور ہر سیاسی پارٹی کو یہ سفید جھنڈے دوں گی کہ خدارا شہر اور ہم پر رحم کھاؤ اور مل کر امن قائم کرو۔

جن دنوں میرا پڑاؤ بجیا کے گھر تھا، انہی دنوں کراچی کی ایک سیکورٹی ایجنسی کے مالک ایک صاحب بجیا کے نام کو ہائی جیک کرنے کے چکروں میں بجیا کے گھر کے چکر پر چکر کاٹ رہے تھے۔

میں ٹھہری سدا کی صحافی، موصوف کے ارادے بھانپ چکی تھی، میں نے کئی بار سوچا کہ بجیا کو صاحب بہادر کے عزائم کی خبر کروں مگر چونکہ بجیا سب ہی سے والہانہ طریقے سے ملتی تھیں اس لیے مناسب نہ لگا۔

پھر ایک دن جب وہ موصوف اپنا ایک اور کام نکلوانے کے لیے بجیا کو ساتھ لے گئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے واپسی پر بجیا کو سارا احوال گوش گزار کیا مگر اپنے جواب سے بجیا نے مجھے ساری عمر کا سبق دے دیا کہنے لگیں

’بُرے لوگوں کی بُرائی کا مجھے بھی علم ہے مگر وہ بیچارے کیا کریں کمزور اور نادان لوگ ہیں، اگر میں ان کے کچھ کام آسکوں تو شاید یہ نادان کسی اور طرف نہ بھٹکیں، شاید یہ بھی اچھے لوگ بن جائیں؟‘

بالکل ایسے ہی بجیا نے اپنی پوری عمر گزاری کہ جو کوئی بجیا کے گھر دستک دیتا تھا بجیا اس کے کام آنے کے لیے خود کو بُھلا کر ہر مشکل وقت پر کھڑی ہوتی تھیں۔

لکھاری فاطمہ ثریا بجیہ کے ساتھ
لکھاری فاطمہ ثریا بجیہ کے ساتھ

ایک بار معروف گلوکار عالمگیر کے اعزاز میں کراچی کے ایکسپو سینٹر میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک عالیشان کنسرٹ رکھا۔ میں آفس سے بجیا کے گھر پہنچی تو دیکھا بجیا ہلکے انگوری رنگ کی سلک والی ساڑھی پہنے کھڑی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں کہ فوراً آفس کا بیگ رکھو اور کنسرٹ میں چلو۔

میں نے اپنے مسلے کپڑوں کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ میرا حلیہ جانے والا نہیں۔ بجیا نے بڑے پیار سے مجھے فریش روم کی جانب دھکیلا۔ میں نے منہ دھویا ہی تھا کہ بجیا بلیک اینڈ وائٹ چیک کی سلکی ساڑھی لیے کھڑی تھیں۔ خیر اس ساڑھی کا بلاؤز کیسے سیفٹی پن لگا لگا کر بجیا نے ایڈجسٹ کیا اور کیسے مجھے سچے موتیوں کا ہار پہنایا وہ الگ دلچسپ قصہ ہے۔

فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ عالمگیر کے کانسرٹ میں
فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ عالمگیر کے کانسرٹ میں

بجیا عمر کوٹ کی راجپوت خواتین کے ساتھ
بجیا عمر کوٹ کی راجپوت خواتین کے ساتھ

یہ 2009ء کا رمضان مبارک تھا۔ بجیا کا گھریلو ملازم عبدالوہاب سالانہ چھٹیوں پر بنگلہ دیش گیا ہوا تھا۔ خرابی صحت کے باعث بجیا تو روزے سے نہ ہوتیں، ہاں مگر افطار میں پھلوں کی چاٹ اور دہی بھلے بجیا ضد کرکے خود بنانے کھڑی ہوجاتیں۔ میں لاکھ انکار کرتی مگر بجیا کو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا ہی پسند تھا۔

اب خیر سے وہ کام اگر گاڑی چلانا ہو تو؟ بس وہ منظر سوچیں کہ اسی (80) سالہ ایک خاتون گاڑی چلائیں اور خاتون بھی بالکل دبلی پتلی چھوٹی اور پیاری سے بجیا ہوں تو کیا ہوگا۔

اتوار کا دن تھا، عید قریب تھی، سو میں اپنے گھر جانے کے لیے نکلنے لگی۔ پیچھے سے بجیا کی آواز آئی کہ سخت گرمی ہورہی ہے تم روزے سے ہو، اتنی دھوپ میں اکیلی کہاں جاؤ گی، چلو میں چھوڑ آتی ہوں۔

تصور کریں کہ میں نے بجیا کو اس ایڈونچر سے روکنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے ہوں گے، مگر بجیا نے تو جیسے ٹھان لی تھی۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ گاڑی جب خالد بن ولید روڈ سے ہوتی ہوئی خراماں خراماں اللہ والی چورنگی تک آئی تو مجھ پر کیا بیتی ہوگی۔

مزید پڑھیے: فاطمہ بجیا کے ترجمہ شدہ جاپانی ڈراموں پر مشتمل کتاب کا اجراء

بجیا گاڑی کا اسٹیئرنگ تھامے نہایت سہولت سے گاڑی چلا رہی تھیں البتہ ہمارے ارد گرد سے گزرتی گاڑیوں والے اُچک اُچک کر یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ گاڑی خود بخود چل رہی ہے یا کوئی چلا رہا ہے۔

سگنل پر ہمارے ساتھ ’کے الیکٹرک‘ کا ٹرک آن کھڑا ہوا۔ لائن مین اپنے ٹرک کے کونے تک آکر زور سے کہنے لگا

’بی بی کیوں اپنی والدہ سے گاڑی چلوا رہی ہو، وہ بزرگ ہیں آپ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھو۔‘

بس اس کے بعد میں نے اپنے گھر کے بجائے واپس بجیا کے گھر جانے میں ہی عافیت جانی۔

بجیا ایسی ہی غریب پرور تھیں۔ ان کے بینک اکاونٹ کا بڑا حصہ مہمان نوازی میں نکل جاتا تھا، عبدالوہاب صبح چولہے پر جو ہانڈی چڑھاتا تھا تو خود اسے بھی یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنا سب کچھ کس کے لیے پکارہا ہے۔ پھر جیسے حیسے دن چڑھتا اور ڈھلتا، بجیا کے مہمان آتے اور جاتے رہتے ہاں مگر کھانے کی میز بنگالی اور حیدرآبادی کھانوں سے بار بار سج جاتی۔

اس عرصے میں جو چیزیں بجیا سے سیکھنے کو ملی ان میں بجیا کا ہر کسی سے اچھی امید رکھنا تھا۔ بجیا کو نجانے کیوں ہر ملنے والے شخص سے صرف اچھے کی ہی امید ہوتی تھی، اور اللہ نے بھی بجیا کی اس اچھی امید کی ایسی لاج رکھی کہ آج میں بھی جس کا بظاہر بجیا سے کوئی خونی رشتہ نہیں، وہ بھی انہیں یاد کررہے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

تبصرے (0) بند ہیں