ان کی اچانک موت سے پہنچنے والا صدمہ نہایت شدید ہے، مگر اتنا ہی شدید فخر کا یہ احساس بھی ہے کہ وہ ہمارے درمیان زندہ رہیں۔

عاصمہ جہانگیر وہ شہری تھیں جن پر پورا پاکستان فخر کر سکتا تھا، اور جن جیسا بننے کی ہم میں سے زیادہ تر صرف امید ہی کر سکتے ہیں۔

طاغوت کا سامنے کرنے، کمزوروں کا دفاع کرنے، اور پاکستان کو جمہوری، آئینی اور سیکیولر بنیادوں پر استوار کرنے کی بااصول اور باہمت عاصمہ کی خواہش اور عزم نے انہیں بلاشبہ مثالی کردار بنا دیا تھا۔

اپنی بالغ زندگی کا بڑا حصہ عوام میں رہ کر گزارنے والی عاصمہ نے اپنی ذاتی تشہیر کو ان مسائل پر قربان کر دیا جس کی فکر درست سوچ رکھنے والے ہر باشعور شہری کو ہونی چاہیے۔

عاصمہ ایک بے خوف وکیل اور نہایت دانشمند شخصیت تھیں، اور وہ ہمیشہ کمزوروں کے حقوق اور طاقتوروں کے احتساب کی زبان بولتی تھیں۔ ہر جگہ کے مجبوروں اور مظلوموں کے لیے ان کا بے خوف دفاع یاد کیا جائے گا۔

عاصمہ نے جہاں انسانی حقوق اور دیگر قابلِ تعریف مقاصد کے لیے ملک اور دنیا بھر کا سفر کیا، وہاں آمریت اور مطلق العنانیت کے خلاف ان کی زندگی بھر طویل جدوجہد ہے جو صرف انہی کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

ان کے والد ملک غلام جیلانی نے بہادری سے سابقہ مشرقی پاکستان میں فوج کی زیادتیوں کی مخالفت کی، اور کچھ ہی عرصے بعد عاصمہ بھی سڑکوں پر ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف میدانِ عمل میں تھیں۔

جنرل ضیاء کے دور میں قید کاٹنے اور پھر ایک اور آمر جنرل مشرف کے دور میں نظربند ہونے والی عاصمہ نے کبھی بھی آمریت اور مطلق العنانیت کے خلاف بولنا نہیں چھوڑا۔ ان کی کاٹ دار تنقید کی وجہ سے زیادہ تر مطلق العنان حکمران اور اشراف ان سے خوف زدہ نظر آتے تھے۔

اور انہیں ہونا بھی چاہیے تھا۔

عاصمہ کے بااصول مؤقف کی وجہ سے وہ ایک خطرناک حریف تھیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے اصولوں کی گہرائی تب سامنے نظر آتی جب جب ایم کیو ایم کی بات آتی۔

کراچی میں ایم کیو ایم کی عسکریت پسندی اور تشدد کی مذمت کرنے کی وجہ سے الطاف حسین عاصمہ کو سخت ناپسند کرتے تھے، مگر عاصمہ اس پارٹی کے خلاف ریاست کے سخت ترین ایکشن کے خلاف تنقید کرتی رہیں، اور انہوں نے ووٹروں کے اپنے پسندیدہ نمائندوں کو چننے کے حق کا ہمیشہ دفاع کیا۔

انسانی حقوق کی ایک مثالی چیمپیئن، اور جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی علمبردار کو کھو دینا کسی بھی معاشرے کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔

عاصمہ جہانگیر پاکستان سے ایک ایسے تاریخی موڑ پر بچھڑی ہیں جب ملک میں جمہوری مرحلے پر بے یقینی کے سائے لہرا رہے ہیں۔

جمہوریت شاید چلتے رہنے کے لیے راستہ ڈھونڈ لے، مگر جمہوریت کو جمہوریت مخالف اور سیاسی، دونوں ہی حلقوں سے لاحق خطرات نہایت گہرے ہیں۔

جمہوری ادارے اس وقت کمزور ہیں اور بنیادی حقوق کے محافظ نظام جو پہلے ہی خامیوں کا شکار تھے، اب مزید حملوں کی زد میں ہیں۔

اپنے آخری دنوں تک عاصمہ جہانگیر نے ایک زبردست لڑائی لڑی۔ ان کا کام اب ختم ہو چکا ہے، مگر پاکستان کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیوں کہ اندھیرا اب بھی ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔

امید ہے کہ انسانی اچھائی، جمہوریت، اور حقوق کے نئے علمبردار اٹھیں گے، اور جلد اٹھیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 12 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Qalam Feb 12, 2018 04:24pm
اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمائے بہت عظیم خاتون تھیں بہت بہادر کمزوروں کے لئے آواز اٹھانے والی کسی سے نہ ڈرنے والی ھمارا رب تو رب العالمین ہے کیا وہ کسی کو معاف کرنے کے لئے ہماری درخواست کا انتظار کرتا ہے یا اسے ہماری دعا کی ضرورت ہے؟ کسی کے لئے دوائے مغفرت اصل میں انسان کے اپنے کام آتی ہے جنازہ میں پہلے زندوں کے لئے دعا ہے پھر مردوں کے لئے۔