اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت سے متعلق شق میں مبینہ تبدیلی کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو 9 مارچ کو سنایا جائے گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت سے متعلق شق کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

اس موقع پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے مسلمان سے احمدی اسٹیٹس اپنانے والے 6600 افراد کی ٹریول ہسٹری عدالت میں پیش کی گئی جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی کی جانب سے آئینی ترمیم کے دوران قومی اسمبلی میں کی جانے والی بحث کا مسودہ بھی پیش کیا گیا۔

اس کے علاوہ احمدی کمیونٹی کا 1981 اور 1998 کی مردم شماری کا ریکارڈ عدالت میں جمع کیا گیا اور ساتھ ہی ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے 2017 کی مردم شماری کا عارضی ریکارڈ بھی جمع کیا گیا۔

مزید پڑھیں: الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث سے متعلق سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب

جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیئے کہ ہم نہ کسی کے خلاف ہیں نہ اقلیتوں کے حقوق سلب کررہے ہیں، شناخت ظاہر نہ کرنا ریاست کے ساتھ دھوکہ ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ختم نبوت حلف نامے کی 2002 کی شقوں کو پہلے سے بہتر انداز میں بحال کردیا گیا ہے۔

گذشتہ روز چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے عدالتی نوٹس پر تنقید کے جواب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کسی اسپیکر اسمبلی کو نوٹس نہیں بھیجا، اپنی آئینی حدود سے آگے نہیں جائیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ غلط تاثر ابھرا ہے لگتا ہے ان کو اصل پوزیشن کا علم نہیں، ہم نے سینیٹ کی وہ معلومات مانگی ہیں جو ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر معلومات طلب کرنا مداخلت ہے تو ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے‘

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت سے متعلق شق کے معاملے پر دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور اعلان کیا کہ یہ فیصلہ 9 مارچ کو سنایا جائے گا۔

خیال رہے کہ عدالت نے فیض آباد دھرنے سے متعلق درخواستوں کو کیس سے الگ کردیا تھا اور ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جارہی تھی۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختم نبوت کی شق میں مبینہ تبدیلی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران شماریات ڈویژن سے 1947 سے 1998 تک اور 2017 کی مردم شماری میں احمدیوں سے متعلق ریکارڈ طلب کیا تھا۔

5 مارچ 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پر بحث کے حوالے سے سینیٹ کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔

اس سے قبل 2 مارچ 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ کو بتایا تھا کہ آئینی عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے۔

20 فروری 2018 کو حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم پر راجا ظفر الحق کمیٹی کی سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔

مزیر پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش

اس سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ احمدیوں کو پاکستان میں رہنا ہے تو شہری بن کر رہیں اسلام پر نقب نہ لگائیں، میں کوئی فتوٰی نہیں دے رہا پاکستان کا آئین احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتا جبکہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ ختم نبوت سے متعلق درخواست پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔

الیکشن ایکٹ 2017

خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔

نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر کچھ سماعتوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے 21 فروری 2018 کو انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔

چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لیے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔

فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف فیصلے کے بعد جب سے پارٹی صدر بنے تب سے نااہل سمجھے جائیں گے۔

یاد رہے کہ اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی بھی کالعدم ہوگئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں