کراچی شہر میں تقریباً آدھی رات ہونے والی ہے مگر اس کے مالیاتی مرکز آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم بینکوں کے صدر دفاتر کی اندرونی روشنیاں پوری آب و تاب سے چمک رہی ہیں اور آہستہ آہستہ تھکے ماندے بینکار دفاتر سے نکل کر گھروں کی جانب گامزن ہیں۔

آئی آئی چندریگر روڈ پر یہ مناظر ہر مہینے کے آخری عشرے میں دکھائی دیتے ہیں۔ جوں جوں مہینے کا اختتام قریب آتا ہے، بینکوں کے دفاترمیں دیر تک کام کرنے کے عمل میں اضافہ دیکھا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ دفاتر رات 12 بجے کے بعد بھی کھلے رہتے ہیں اور ملازمین مہینے کا ہدف پورا کرنے میں جتے رہتے ہیں۔

یہ ہے پاکستان میں غلامی کی نئی اور جدید شکل

پاکستان میں بینکوں میں وقتِ مقررہ سے زائد وقت تک کام لینے کا چلن عام ہوگیا ہے اور اب وہ افراد جو پاکستانی قوانین اور بینک کی اپنی ہیومن ریسورس پالیسی کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دیں ان کے لیے بینکوں میں ملازمت کے دروازے بند ہی ہوتے ہیں۔

بینکوں میں مقررہ وقت سے زائد کام کرنے کا چلن اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ اگر کوئی ملازم مقررہ وقت میں کام ختم کرلے تو تب بھی وہ چھٹی کے بعد ایک سے دو گھنٹے یوں ہی بینک میں گزار کر گھر جاتا ہے تاکہ باس کی نظر میں وہ جلدی گھر بھاگنے والوں میں شمار نہ کرلیا جائے۔ اب تو بینکوں کے منیجرز اضافی وقت کام کرنے کو خلاف قانون نہیں بلکہ ایفیشنسی تصور کرتے ہیں اور اس جبری مشقت لینے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔

پڑھیے: اپنی بچت بینک میں رکھوانا کتنا فائدہ مند، کتنا نقصان دہ؟

گزشتہ چند سال میں بینکوں کے منافع میں اضافے کے علاوہ کھاتے داروں اور صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کے کاروبار میں اضافے کا اندازہ ان کے منافع سے لگایا جاسکتا ہے۔ سال 2015ء کے دوران بینکوں کے منافع میں 30 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ سال 2015ء میں بینکوں کو مجموعی طور پر 306 ارب روپے سے زائد کا نفع ہوا جبکہ سال 2014ء میں بینکوں کا منافع 235 ارب روپے تھا۔ اس طرح محض ایک سال میں بینکوں کے نفع میں 71 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا اور بینکوں کو یہ منافع کس وجہ سے ہوا؟ اس کی محنت کش افرادی قوت کی وجہ سے۔

منافع بڑھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کاروبار بڑھ رہا ہے۔ مگر بینکوں کی انتظامیہ کاروباری حجم میں توسیع کی مناسبت سے ملازمین کی تعداد میں اضافہ نہیں کر رہی ہیں، حالانکہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے ماہرین کے مطابق منافع میں اضافے کی شرح کے تناسب سے ہیومن ریسورس میں کم از کم 10 فیصد کا اضافہ ہونا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اضافی کام کا بوجھ موجودہ اسٹاف پر منتقل کیا جارہا ہے جس کو نمٹانے کے لیے اب دیر تک دفاتر میں بیٹھنا ایک ایسی روایت بن گئی ہے جس سے بغاوت کرنے والے کی منزل دفتر سے باہر ہے۔

اس پورے عمل میں امریکا کے سٹی بینک کے کام کے اوقات نے بھی بہت اثرات مرتب کیے ہیں۔ سٹی بینک پاکستان میں پہلا بینک تھا جس نے ملک میں صارفین کے لیے قرضے متعارف کروائے۔

سٹی بینک نے پاکستان میں کریڈٹ کارڈ، قرضہ، گھر کا قرضہ اور گاڑی کا قرضہ متعارف کروایا اور ان مصنوعات کی فروخت کے لیے سیلز ٹیمیں تشکیل دیں۔ پہلی مرتبہ سیلز کے افراد نے گھروں اور دفاتر جا جا کر لوگوں کو قرض حاصل کرنے پر آمادہ کیا۔

شعبہ صحافت جوائن کرنے سے قبل میں بھی کریڈٹ کارڈز کی ایک سیلز ٹیم کا حصہ تھا۔ سٹی بینک میں سیلز کے لیے کوئی بھی وقت مقرر نہیں تھا۔ ہمیں صبح 9 بجے دفتر پہنچنا پڑتا تھا اور ہر روز سیلز کی 2 درخواستیں جمع کروائے بغیر گھر جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

سٹی بینک تو عالمی مالی بحران اور دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستان سے اپنا صارف کاروبار سمیٹ چکا ہے، مگر اس میں کام کرنے والے افراد کو دیگر بینکوں نے بھاری معاوضوں اور اعلیٰ عہدوں پر رکھ لیا۔ اس کے بعد ان افراد نے نہ صرف پاکستانی بینکوں میں صارف قرضے متعارف کروائے بلکہ سٹی بینک کے تمام مروجہ اصولوں کو بھی اپنا لیا جس میں صرف سیلز کے اہداف حاصل کرنا بینکاری کا مقصد ٹھہرا۔ اس سیلز کے اہداف میں سیلز ٹیم کی جانب سے قرضے کی درخواستیں لانا اور کریڈٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اس کی جانچ پڑتال کے بعد منظوری دینا شامل تھا۔

اس کے بعد یہ وباء برانچ بینکاری تک پھیلادی گئی ہے۔ اب نہ صرف برانچ میں تعینات اہلکاروں کو صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بینکاری کی خدمات سرانجام دینا ہوتی ہے بلکہ اس کے بعد تمام دن کے کام اور حساب کتاب کو کلوز بھی کرنا ہوتا ہے جس سے کام کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے اور نماز کے لیے دیا جانے والا وقفہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ بس جاؤ اور تھوڑی بہت زہر مار کرلو کیوں کہ کسٹمر زیادہ دیر کھڑا نہیں رہے گا۔

انسٹیٹیوٹ آف بینکرز پاکستان میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران جہاں اسٹیٹ بینک کے گورنر اور دیگر بینکوں کے صدور موجود تھے، وہاں پر میں نے گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال پوچھا کہ کیا بینکاری کے شعبے میں جبری مشقت کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات تجویز کیے جارہے ہیں؟ اور اگر پاکستان کے بہترین بینک کا ایوارڈ کسی بینک کو دیا جائے گا تو کیا اس میں بینک کے اپنے ہیومن ریسورس کے ساتھ تعلق اور ہیومن ریسورس پالیسی پر عملدرآمد کو بھی مدِنظر رکھا جائے گا کیونکہ زائد وقت کی وجہ سے لوگوں کی شادی شدہ زندگی متاثر ہورہی ہے اور رشتے ختم ہورہے ہیں۔

پڑھیے: کیا سیونگس اکاؤنٹ آپ کے لیے مفید ہیں؟

اس پر سابقہ گورنر محمود اشرف وتھرا جو کہ اب دوبارہ حبیب بینک میں ملازمت اختیار کرچکے ہیں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ بینکوں میں زائد الوقت جبری مشقت لی جاتی ہے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ بینکاروں کو چونکہ گھر بنانے کے لیے قرض ملتا ہے، اس لیے انہیں رشتے مل جاتے ہیں۔

اس تقریب میں موجود دیگر بینکوں کے صدور نے مجھے گھیر لیا اور بعض نے اس سوال کے اٹھانے پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ مگر وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ زائد الوقت کام لے کر وہ نہ صرف پاکستانی قوانین بلکہ بینکس کی اپنی ہیومن ریسورس پالیسی کے خلاف کام کررہے ہیں یا نہیں۔

ایک بینکر کا کہنا تھا کہ صرف 10 فیصد اسٹاف کو رات دیر تک کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر جب پوچھا گیا کہ کیا اس دیر تک کام کرنے پر اضافی معاوضہ دیا جاتا ہے؟ تو وہ اس کا جواب دینے کے بجائے ساتھ کھڑے بینک کے صدر سے بات کرنے لگے۔

اب جبکہ بینکوں کو مفت اور جبری مشقت کی عادت ہوگئی ہے تو اسٹیٹ بینک کو خیال آہی گیا ہے کہ اس کے خلاف بینکوں سے بات کی جائے۔

اسٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اس حوالے سے نشاندہی اسٹیٹ بینک کی آڈٹ ٹیم نے کی ہے اور آڈٹ ٹیم نے یہ نشاندہی کسی ایک بینک یا کسی ایک سال کے تجربے کی بنیاد پر نہیں کی ہے بلکہ اس حوالے سے آڈٹ ٹیم نے گزشتہ چند سال میں اپنی رپورٹس میں اس بات کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ تجویز کیا ہے کہ زائد الوقت کام لینا بینکس کی ہیومن ریسورس پالیسی اور پاکستان میں مشقت کے حوالے سے موجود قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی آڈٹ ٹیم نے رپورٹ گزشتہ کئی گورنرز کو پیش کی ہے مگر کسی نے اس پر کام کرنا مناسب نہیں سمجھا، لیکن اب موجودہ گورنر طارق باجوہ نے اس رپورٹ پر کارروائی کرنے کی ابتداء کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بینکاری نظام میں جو بھی عمل ہوتا ہے اس کے پیچھے قرض کا لین دین اور وصولی ہوتی ہے۔ آڈٹ رپورٹ کا کہنا ہے کہ کام کے دباؤ اور زیادہ وقت تک کام لینے کی وجہ سے عملے کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق طارق باجوہ نے اس معاملے کو پہلے پاکستان بینکس کونسل میں اٹھانے اور بعد ازاں اس معاملے پر بینکوں کو نوٹس جاری کرنے فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹس پیش ہوئیں اور فیصلہ ہوا کہ جبری مشقت کا معاملہ کمرشل بینکوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا مگر تاحال اس پر کوئی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

بینکاروں میں جسمانی عارضوں میں اضافہ

کام کے دباؤ کی وجہ سے بینکاروں میں بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور بینکاروں میں سب سے اہم اور بڑی بیماری عارضہ قلب، شوگر، بلڈ پریشر اور موٹاپا کے علاوہ ڈپریشن عام ہے۔

ہمارے دوست حامد الرحمان جو صحت سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بعض اسپتالوں نے ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا ہے۔ مگر اصل حالت تو بینکوں کے ہیومن ریسورس شعبے ہی سے پتہ لگ سکتی ہے۔ حامد الرحمان کہتے ہیں کہ بینکاروں کو ہونے والی یہ تمام بیماریاں لائف اسٹائل بیماریاں ہیں۔ جن کو تھوڑی ورزش، تفریح اور بہتر نیند کرکے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ مگر جبری مشقت کے مارے بینکاروں کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ وہ اپنی صحت کے لیے وقت نکال سکیں۔

ہمارے ایک دوست حبیب بینک لمیٹڈ کی آفیسرز یونین کے کرتا دھرتا ہیں۔ انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات کی تائید کی کہ بینکاروں میں لائف اسٹال بیماریاں زیادہ لاحق ہورہی ہیں۔ انہیں سیاست کی وجہ سے ہر روز ہی کسی نہ کسی ساتھی کی عیادت کے لیے جانا پڑتا ہے اور یہ بیماریاں لوگوں میں اس تیزی سے پھیل رہی ہیں کہ اب تو یہ عیادت دن میں کئی بار کرنی پڑجاتی ہیں۔

جبری مشقت اور عدالتوں سے ریلیف

پاکستان میں 90ء کی دہائی کے آخر تک بینکوں میں کام کرنے والوں کو سہولتوں کے علاوہ یونین سازی کا حق بھی موجود تھا اور بینکوں میں کام کے اوقات پر سختی سے عمل بھی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ملازمین کی آواز اٹھانے کے لیے یونین اور ایسوسی ایشنز کی بھی اجازت تھی۔ مگر بینکوں کے حصص کی فروخت اور اس کی انتظامیہ نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کے بعد سب سے پہلے ملازمین کی مراعات کی واپسی کا عمل شروع ہوا جس میں دفتری اوقات کار کی پابندی بھی شامل تھا۔

پاکستان میں جو مروجہ قوانین ہیں وہ صرف محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور صرف محنت کشوں کو ہی تنظیم سازی کرنے اور انتظامیہ سے کام کا معاہدہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگر کوئی آفیسرز ایسویسی ایشن ہے بھی تو اس کی اہمیت کسی ویلفیئر تنظیم سے زیادہ نہیں ہے۔ اکثر بینکوں میں آفیسرز ایسوسی ایشنز ہیں مگر وہ سب کی سب بینک انتظامیہ کی پاکٹ تنظیم سے زیادہ کوئی درجہ نہیں رکھتی ہیں۔

پڑھیے: مڈل کلاس آمدنی سے پُرسکون ریٹائرمنٹ کیسے ممکن؟

بینکوں نے تیزی سے ہونے والی کمپیوٹرائزیشن کا سہارا لیتے ہوئے کمال ہوشیاری سے کلرکس، اکاونٹنٹ اور دیگر نان آفیسرز اسامیوں کو سرے سے ختم ہی کردیا ہے۔ اب آپ چاہے کام ماضی کے کلرک والا کریں مگر کہلائیں گے بینک افسر ہی۔۔

ایڈووکیٹ انجم اس حوالے سے کہتے ہیں کہ مروجہ قوانین محنت کشوں کے لیے ہیں۔ مگر اب یہ جو بڑے پیمانے پر جبری مشقت کی ہوا چل پڑی ہے اس کے خلاف اگر عدالت سے چارہ جوئی کی جائے تو ان کی نظر میں مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

انجم کے مطابق اگر کسی بھی فرد نے ہفتہ وار 48 گھنٹوں سے زائد کام کیا ہے اور وہ اس بات کو اپنی حاضری رجسٹر یا کسی اور طریقے سے ثابت کردے تو بینکس اضافی وقت کام لینے پر اوور ٹائم دینے کے پابند ہیں۔ اضافی اوقات کار کے حوالے سے کام لینے کو ثابت کرنے کے لیے حاضری رجسٹر کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جن کو بینک روزمرہ کے کام سرانجام دینے کے لئے استعمال کرتا ہے، سے بھی جبری مشقت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

کیونکہ بینکوں میں اکثر جگہ پیپر فری ماحول ہے اور تمام کام ای میل یا الیکٹرانک ویب پورٹل پر کیا جاتا ہے جہاں نہ صرف تاریخ کا اندراج ہوتا ہے بلکہ اسے سرانجام دینے کا وقت بھی خود بہ خود بغیر انسانی مداخلت کے درج ہوجاتا ہے، چنانچہ یہ ریکارڈز بھی بینکوں میں لی جانے والی اضافی مشقت کو ثابت کرسکیں گے۔

ایڈووکیٹ انجم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ملازمین ہائی کورٹ سے براہِ راست رجوع کرسکتے ہیں اور وہ عدالت میں مؤقف اپنا سکتے ہیں کہ انہوں نے کن کن تاریخوں میں مقررہ وقت سے زائد کام کیا ہے جس پر بینک نے انہیں معاوضہ ادا نہیں کیا۔

اس کے علاوہ اگر جبری مشقت کی وجہ سے کسی ملازم کو طبی مسائل کا سامنا بھی ہے تو وہ بھی ڈاکٹرز سے مشورہ کرکے بینک پر مقدمہ دائر کرسکتا ہے اور اپنی صحت میں ہونے والی خرابی پر بینک کو ذمہ دار بتا کر مالی ریلیف حاصل کرسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ انجم کو قوی امید ہے کہ عدالت اس طرح کے مقدمات پر ایسا فیصلہ سنا سکتی ہے جیسا کہ اس نے بینک ملازمین کی پینشن کے معاملے پر کیا ہے۔ اگر بینک ملازمین نے یہ راستہ اپنایا تو بینکوں کو ہونے والے ہوش ربا منافع میں کمی تو ہوگی مگر اس سے بینکوں میں کام کرنے والے ملازمین کی داد رسی بھی ہوسکے گی اور جبری مشقت سے بھی نجات مل سکے گی۔

تبصرے (10) بند ہیں

sohail shaikh Mar 20, 2018 01:22pm
ye sab theek hae lekin koi kanoon nahin hae kuchnahi hoga.jis ke lathe us ke bhense wala kam hae pension case me kia Mazak kia gaya hae sab ko pata hae.
سدرہ ڈار Mar 20, 2018 02:06pm
ایڈووکیٹ انجم اس حوالے سے کہتے ہیں کہ مروجہ قوانین محنت کشوں کے لیے ہیں۔ مگر اب یہ جو بڑے پیمانے پر جبری مشقت کی ہوا چل پڑی ہے اس کے خلاف اگر عدالت سے چارہ جوئی کی جائے تو ان کی نظر میں مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ راجہ کامران صاحب میں امید کرتی ہوں کہ بینک ملازمین آج یہ پڑھ کر آپ کو دعائیں دیں گے اور بینک مالکان آپ سے خفا ہوں گے :)
ZA.Syed Mar 20, 2018 02:14pm
kamran sahib aap nay bohat hi important issue ko highlight kia hai, bayshak jabri mushaqat sirf bank may hi nahi balkay pooray pakistan kay private sector may le jate hai, magar koe bhi awaz uthanay sa qasir hai, kiyun kay nokry say hath dhona peray ga, ya phir us ko discrimination kay samna karna peray ga. Jab qanoon aur insaaf ki hukumrani ho gi tab hi ye masail hal ho saktay hain. Bayherhal aap ka bohat shukriya.
tariq Mar 20, 2018 02:18pm
Good job Raja sb! The situation is much more worst than you highlighted.I have also worked in banking system and i faced the same problems. 1)HR does not work for employees. 2)SBP take no action. 3)No suo-moto action. 4)No any organization supports the rights of bankers.
Abdullah Mar 20, 2018 02:30pm
This is not only with bankers.....If you see about security companies then you can imagine what is happening with them Mr. Kamran please write about security companies. I am software engineer same thing is happening in my industry Software companies owners want their employees to do late sitting on daily basis without pay. Unfortunately "Software Engineers" are working like slaves.....
Adil Mansoor Mar 20, 2018 03:39pm
its true , hope someone would take up the matter , but as sohail shaikh said Qanoon nahi hay -
HASHIM QASIM Mar 21, 2018 11:46am
Very good judgment - but late sitting culture not only found in banks almost 90% of Pvt. Companies do with their employees, need a plate form against this type of culture due to provide sufficient working environment all over the Pakistan here i requested to you please do forward your column along with some of relevant evidences to Supreme Court of Pakistan
BABAR Mar 21, 2018 04:09pm
LATE NIGHT BANKING HAS ALSO BEEN STARTED. EVEN EARNING MORE PROFIT EVERY YEAR, BANKS ARE GETTING MORE CRAZY EVERY YEAR. MANY SMALL FAZOOL BANKS HAVE MADE THE SITUATION MORE WORST. FIRSTLY THERE WAS ONLY FIGHT FOR DEPOSTIT BETWEEN BANKS NOW MORE AND MORE PRODUCTS ARE BEING INTRODUCED AND EMPLOYEES ARE THREATHENED AND FORCED TO MEET THE GOALS. VERY THANKLESS JOB. NO PENSION, NO AFTER RETIRMENT BENEFITS. BAS KAMATAY JAO AUR BACHAY PALTAY JAO BUT NO SAVINGS.
KHAN Mar 21, 2018 05:43pm
بینکوں کے حوالے سے یہ آرٹیکل واقعی تعریف کے لائق ہیں اور امید ہے کہ اربوں روپے منافع کمانے والے بینک اپنے ملازمین کو بنیادی سہولتیں فراہم کرینگے، یہ ایوارڈ وہ ایوارڈ، پاکستان میں اعلیٰ ریٹنگ، ایشیا میں اعلیٰ ریٹنگ، اس ادارے سے سرٹیفیکیٹ وغیرہ کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔ اسی طرح کچھ اور ادارے مثلاً کے الیکٹرک میں یہی سسٹم چل رہا ہے، یہاں کمپیوٹر آپریٹر و دیگر کو نئے نئے نام دے کر مزدور کے درجے سے نکال کر آفیسر بنادیا گیا اور ان سے کام وہی پرانا لیا جارہا ہے، پہلے سے مستقل تجربہ کار عملے کو صرف و صرف ریکوری پر لگا دیا گیا ہے، گھر گھر جاؤ اور صارفین کو جاری کردہ ناجائز یا جائز بلوں کی رقم ادا کرنے پر مجبور کرو۔ اصل کام کرنے پر ان کو اوور ٹائم اور مراعات دینا ہوتا ہے۔ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ پر کم تنخواہوں پر مزدور بھرتی کیے ہیں، جن سے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ رونے کا مقام یہ ہے کہ جان لیوا حادثے یا شدید زخمی ہونے کے باوجود ان کے ورثا کو کمپنی سے بیدخل کرکے ٹھیکیدار سے معاملات طے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور منظور شدہ امداد و دیگر مراعات سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔
عمران Mar 22, 2018 02:27am
سر یہ مسئلہ بینکوں تک ہی محدود نہیں ہر پرائیوٹ کمپینی کا ہے۔ سب ہی اپنے ملازموں کو نچوڑ رہی ہیں اور سونے پر سہاگہ کہ کنٹریکٹ کی جاب کی وبا گورمنٹ سے پرائیوٹ میں بھی آ گئی ہے-