اگر آپ زمین کے شمالی نصف کرّہ پر رہتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس بات پر غور کیا ہو یا نہ کیا ہو کہ کچھ ماہ پہلے دوپہر 12 بجے آسمان میں سورج کی اونچائی آج کل کی نسبت کم تھی۔

اس کے علاوہ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ اونچائی میں اضافے کے ساتھ ہی گرمی بڑھنے لگی ہے جو کہ موسمِ گرما کے آنے کی نوید سنا رہا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ اونچائی میں کمی یا اضافہ کیوں ہوتا ہے؟

بظاہر تو ہمیں یہ لگتا ہے کہ سورج بذاتِ خود اونچائی پر جاتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا اور اس کا سورج کی طرف محوری جھکاؤ ہے۔

زمین کا محور انٹی کلوک وائز زاویے (گھڑی کی سوئی گھومنے کے مخالف زاویے) پر جُھکا ہوا ہے۔ اسی جھکاؤ کی وجہ سے زمین پر موسم وجود میں آئے ہیں۔ اگر یہ محوری جھکاؤ نہ ہوتا تو پورا سال زمین کے قطبین پر سردی اور خط استوا پر شدید گرمی رہتی۔

جب زمین اپنے مدار میں اس مقام پر ہوتی ہے کہ شمالی نصف کرّہ کا سورج کی طرف جھکاؤ زیادہ ہو، تو اس حصّے میں دن کا دورانیہ بھی زیادہ ہوگا اور راتیں چھوٹی ہوں گی۔

اس وجہ سے یہ حصّہ 24 گھنٹوں میں سے زیادہ وقت سورج کی روشنی کی وجہ سے گرم رہے گا، لیکن رات میں اس کو اتنا وقت نہیں ملے گا کہ وہ واپس اپنے عمومی درجہ حرارت پر آ سکے، جس کی وجہ سے اس حصّے میں رہنے والے لوگ موسمِ گرما سے لطف اندوز ہوں گے۔

شمالی نصف کرّہ میں سب سے لمبا دن اور سب سے چھوٹی رات 21 یا 22 جون کو ہوتی ہے۔ اس دن زمین کی اس حالت کو فلکیاتی اصطلاح میں "سَمر سُولسٹائس یا راس السرطان" کہتے ہیں۔

ان مہینوں میں دن کے وقت سورج یہاں کے باشدوں کے سر کے عین اوپر ہوتا ہے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان مہینوں میں جنوبی نصف کرّہ میں بھی گرمی ہی ہوگی تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جنوبی نصف کرّہ میں تمام موسم شمالی نصف کرّہ سے الٹ ہوتے ہیں۔ یعنی اگر شمالی نصف کرّہ میں اپریل سے ستمبر کے مہینے تک موسم گرما ہوتا ہے اور انہی مہینوں میں جنوبی نصف کرّہ شدید سردی کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

یہی حال نومبر سے لے کر فروری تک کا ہے کہ ان مہینوں میں جنوبی نصف کرّہ میں اس قدر شدید گرمی ہوتی ہے کہ آسٹریلیا میں جنگلات میں آگ بھی لگ جاتی ہے لیکن اسی وقت مری، ناران، کاغان اور سوات وغیرہ جیسے علاقوں میں، جو شمالی نصف کرّہ میں واقع ہیں، برف باری سے سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس حالت میں زمین اپنے مدار میں اس مقام پر ہوتی ہے کہ اس کا محوری جھکاؤ سورج سے دوسری جانب ہوتا ہے، لہذا شمالی نصف کرّہ میں سب سے چھوٹا دن اور سب سے لمبی رات 21 یا 22 دسمبر کو ہوتی ہے۔ اس دن زمین کی اس حالت کو فلکیاتی اصطلاح میں "ونٹر سولسٹائس یا راس جدی" کہتے ہیں۔

مگر سال میں 2 اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب سورج کی تپش شمالی اور جنوبی نصف کرّہ میں برابر ہوتی ہے جبکہ دن اور رات کا دورانیہ بھی ایک برابر ہوتا ہے۔

اس دورانیے کے برابر ہونے کی وجہ سے دن میں سورج وقت کا جتنا حصہ زمین کو گرمائش دیتا ہے، رات کے وقت زمین پوری طرح خارج کر دیتی ہے۔ اس موسم میں زمین اپنے مدار میں اس مقام پر ہوتی ہے کہ سورج کی روشنی سے آدھا شمالی نصف کرہ اور آدھا جنوبی نصف کرّہ روشن ہوتا ہے۔ یہ اوقات 21 مارچ اور 22 ستمبر کو آتے ہیں، ان کو فلکیاتی اصطلاح میں "سپرنگ ایقوینوکس" اور "اوٹمنل ایقوینوکس" کہتے ہیں۔

اس حالت میں بھی دونوں کروں میں موسم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ 21 مارچ کو شمالی نصف کرّہ میں بہار جبکہ اسی وقت جنوبی نصف کرہ میں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، 22 ستمبر کو شمالی نصف کرہ میں موسم خزاں اور جنوب میں بہار ہوتی ہے۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔

سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں