پاکستان سپر لیگ 3 میں پشاور زلمی کا سفر عروج و زوال کی ایک دلچسپ کہانی لگتا ہے۔ اس داستان میں ہر رنگ و روپ ہے اور کسی بھی فلمی کہانی کی طرح بہت سے نشیب و فراز بھی ہیں۔ اسے زلمی کے پرستاروں کی دعاؤں کا نتیجہ کہیں یا میدانِ عمل میں جامع کارکردگی کہ پشاور اس وقت مقابلے کی دوڑ میں واپس آیا جب اس کے پاس سوائے جیتنے کے کوئی اور آپشن بچا ہی نہیں تھا۔

جب سب میچز ناک آؤٹ بن گئے، تب وہ ایک کے بعد دوسری بازی جیتا، یہاں تک کہ اب فائنل تک آ گیا ہے۔ کراچی کنگز کے خلاف دوسرا ایلی منیٹر بارش سے متاثر ہوا لیکن مقابلہ خوب ہوا۔ دن میں کُل 32 اوورز پھینکے گئے، جن میں بنے 327 رنز اور وکٹیں صرف 9 گریں۔

کراچی بھی اچھا کھیلا، بابر اعظم نے 45 گیندوں پر 63 رنز بنائے، جو ڈینلی نے صرف 46 گیندوں پر 79 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی لیکن یہ سب کچھ پشاور کو زیر کرنے کے لیے کافی نہیں تھا کیونکہ پشاور کے پاس تھی کامران اکمل کی ایسی اننگز جو کراچی تو کیا، کسی بھی ٹیم کے خلاف کھیلی جاتی، فاتحانہ کہلاتی۔

کامران اکمل کی یہ اننگز ایسی نہ تھی کہ ابتداء میں کوئی زندگی مل گئی، حریف نے کوئی آسان کیچ چھوڑ دیا، رن آؤٹ کا موقع ضائع کردیا یا پھر وہ کسی نو-بال پر آؤٹ ہوگئے تھے اس لیے دوسری زندگی میں یہ شاہکار تراش لیا۔ یہ ایسی اننگز تھی، ایسی باری تھی جو سنچری تو نہ تھی لیکن اس سے کم بھی نہیں کہلائے گی کیونکہ یہ بہت بڑے مقابلے میں اور بہت اہم مرحلے پر کھیلی گئی تھی۔

ابر آلود موسم میں جب حریف ٹاس جیت کر آپ کو میدان میں اُتارے اور اس کے پاس محمد عامر اور عثمان شنواری جیسے باؤلر ہوں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ سب سے کڑا وقت اوپنرز پر آئے گا۔

یہاں ابتدائی چند اوورز میں سیٹ ہونے کے بعد زلمی اوپنرز نے جو کیا، وہ پشاور کو بالادست مقام تک پہنچا گیا۔ کامران اکمل اور آندرے فلیچر نے صرف 9 اوورز میں 107 رنز کا آغاز دیا۔

خاص طور پر کامران اکمل کو روکنا ناممکن لگتا تھا۔ انہوں نے جس طرح عثمان شنواری کے اوور میں 2 چھکے اور 3 چوکے لگا کر 25 رنز لوٹے، وہ منظر دیکھنے والا تھا۔ 10واں اوور مکمل ہوا تو ’کامی‘ کی یہ اننگز بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ تب اسکور بورڈ پر 120 کا ہندسہ جگمگا رہا تھا اور کامران کے نام کے سامنے لکھے تھے 77 رنز، گیندیں صرف 27، چوکے 5 اور چھکے 8!

پشاور زلمی کی اننگز کی رفتار بعد میں کم بھی ہوئی لیکن وہ 170 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی، جو کراچی کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ آخر میں کراچی کو ایک ’انور علی‘ کی ضرورت تھی جو 6 گیندوں پر 27 رنز دیکھ کر بھی پوری جان لڑا دیتا، لیکن ایسا نہ ہوا، کراچی کا سفر تمام ہوا اور پشاور ایک مرتبہ پھر فائنل میں پہنچ گیا۔ مردِ میدان بنے ایک مرتبہ پھر کامران اکمل۔

36 سال کے کامران اکمل بہت عرصے تک قومی کرکٹ ٹیم کا اہم حصہ رہے، پھر 2009ء اور 2010ء کے 2 بھیانک سال جہاں پاکستان کرکٹ کو کافی نقصان پہنچا گئے، وہیں کامران اکمل کے کریئر کا بھی تقریباً خاتمہ ہی کردیا۔ تب سے اب تک وہ ’اِن اینڈ آؤٹ‘ کا شکار ہیں اور اب شاید واپسی کا کوئی امکان ہی نہیں۔

جب 2011ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پاکستان بھارت کے ہاتھوں شکست کھا بیٹھا تھا تو کامران اکمل کو ڈیڑھ سال تک اسکواڈ میں واپس نہیں لیا گیا۔ پھر جب بھی کوئی بڑی اور پریشر سیریز ہوتی تو کامران کی یاد آتی، ورنہ وہ باہر ہی رہتے۔

2012ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، پھر بھارت کا تاریخی دورہ، 2013ء میں چیمپیئنز ٹرافی اور 2014ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، ان تمام میگا ایونٹس میں کامران اکمل کو کھلایا گیا اور کیونکہ پاکستان یہ سب ہارا، اس لیے اُن ایونٹس کے بعد باہر ہونے والوں میں پہلا نام ’کامی‘ کا ہی ہوتا۔

پچھلے سال پاکستان سپر لیگ میں شاندار کارکردگی کے بعد کامران اکمل کو ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے بلایا گیا، لیکن اس دورے کے ساتھ ہی وہ ایک مرتبہ پھر باہر کردیے گئے اور شاید اب دوبارہ کبھی قومی کرکٹ کھیلتے نظر نہ آئیں۔

وجہ سادہ سی ہے کہ اس وقت ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تینوں میں کپتان سرفراز احمد خود وکٹ کیپر ہیں اور دوسری وجہ ہیں کوچ مکی آرتھر جو ایک نوجوانوں پر مشتمل ٹیم تیار کر رہے ہیں جو اس وقت ٹی ٹوئنٹی میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم بن چکی ہے، اس لیے جب نتائج مل رہے ہیں اور ضرورت بھی نہیں تو کامران اکمل کے پاس پاکستان سپر لیگ میں کارنامے دکھانے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کامران نے نیا جنم لیا ہے۔

شاندار بلے بازی کرنے پر کامران اکمل مین آف دی میچ قرار پائے۔
شاندار بلے بازی کرنے پر کامران اکمل مین آف دی میچ قرار پائے۔

اگر کارکردگی کی بات کریں تو نوجوان ہوں یا تجربہ کار، کوئی بھی پی ایس ایل میں کامران اکمل کے پائے کا کھیل پیش نہیں کرسکا۔ آپ خود دیکھ لیں، اس وقت جبکہ پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن اپنے اختتام پر ہے اور صرف فائنل رہ گیا ہے تو سب سے زیادہ 424 رنز کامران اکمل کے ہی ہیں، سب سے بڑی 107 رنز کی اننگز بھی انہی کی، سب سے زیادہ اوسط بلکہ اسٹرائیک ریٹ میں بھی وہ ٹاپ تھری میں شامل ہیں، سب سے زیادہ نصف سنچریاں بھی کامران ہی کی، سیزن کی واحد سنچری بھی انہی کی، سب سے زیادہ 28 چھکے بھی، بلکہ سب سے زیادہ مرتبہ صفر پر بھی وہی آؤٹ ہوئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ تینوں سیزنز اٹھا کر دیکھ لیں، کامران اکمل کا کوئی مقابل نہیں، دور تک، بلکہ بہت دور تک۔ ہر، ہر ریکارڈ کامران کے پاس ہے اور ان کی یہی کارکردگی ہے جس کی وجہ سے پشاور زلمی پی ایس ایل کی تاریخ میں سب سے زیادہ 19 میچز جیتنے والی ٹیم بنی۔

بہرحال، 25 مارچ کو جب کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم 9 سال کے بعد ایک اہم ترین مقابلے کے لیے روشن ہوگا تو اسلام آباد یونائیٹڈ کا مقابلہ #YellowStorm سے ہوگا۔ یہ صرف 2 چیمپیئنز کا ٹکراؤ ہی نہیں ہوگا بلکہ یہ لیوک رونکی بمقابلہ کامران اکمل بھی ہوگا۔

رنز، اسٹرائیک ریٹ، اوسط، نصف سنچریوں، سنچریوں، وکٹوں کے پیچھے شکار، 'مین آف دی ٹورنامنٹ' اور سب سے بڑھ کر ٹرافی کس کے ہاتھ آئے گی؟ اس میں دونوں کے مابین ہوگا آخری مقابلہ۔

بس انتظار ہے اتوار کا!

تبصرے (0) بند ہیں