لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔

بلوچستان میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کی بات کی جائے تو این اے 272 گوادر کم لسبیلہ جنوبی سرحد پر بلوچستان کی 800 کلومیٹر ساحلی پٹی پر مشتمل ہے، جو کراچی سے شروع ہوکر ضلع گوادر کے مغربی حصے میں ایران تک پھیلی ہے۔

این اے 270 جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کے 4 مرکزی اضلاع پر مشتمل ہے، جن میں پنجگور، واشک، خاران اور آواران شامل ہیں، یہ حلقہ 94،452 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ اراضی پورے خیبرپختونخوا کی اراضی سے بڑی اور پنجاب کی تقریباً نصف اراضی جتنی ہے۔

این اے 270 بلاشبہ ایک بہت ہی بڑا حلقہ ہے۔ مگر اس حلقے کی آبادی ایک نشست کے لیے متعین کردہ صوبائی اوسط آبادی جتنی ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حلقہ بندی قانون کے مطابق ہی کی گئی ہے۔ کچھ بھی غیر قانونی نہیں۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟

اس حلقے میں آبادی کو اراضی میں تقسیم کریں تو یہاں 8 افراد فی مربع کلومیٹر میں رہتے ہیں، جبکہ کراچی ضلع وسطی (این اے 253-256) میں فی مربع کلومیٹر کے حساب سے 43 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ کیا ان دونوں حلقوں میں رہنے والے لوگ مساوی آسانی سے اپنے سیاسی حقوق کا استعمال کرسکتے ہیں؟ عملاً، اس قدر بڑے بڑے حلقوں میں سیاسی عوامل صرف زیادہ آبادی والے علاقوں تک ہی محدود رہتے ہیں، جبکہ کم آبادی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں تک سیاسی کردار ادا کرنے والوں کا پہنچنا ’مشکل‘ بن جاتا ہے۔

ایسی ہی صورتحال ہمیں 2002ء سے قبل غیر مسلموں کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے موقع پر دیکھنے کو ملی کہ جب پورے ملک یا پورے صوبے کو ہی واحد متنوع ممبر حلقہ قرار دیا گیا تھا۔ یوں قومی اسمبلی میں 4 مسیحی نشستوں پر فیصل آباد اور لاہور کے امیدواروں کی فتح ہوئی، کیونکہ ان علاقوں میں مسیحی برادری کی کثیر تعداد آباد ہے۔ اس طرح ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر مسیحی افراد اپنی تمام تر سیاسی اہمیت کھو بیٹھے۔

پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟

حلقہ بندیاں نہ تو جیومیٹری کی مشق ہیں اور نہ ہی ریاضی کا حل طلب مسئلہ۔ البتہ اس میں ان دونوں کی مدد درکار ہوتی ہے، حلقہ بندی کا مقصد لوگوں کی نمائندگی کو ان ایوانوں میں ہر طرح سے ممکن بنانا ہے جہاں ان کی زندگیوں اور فلاح کے اہم فیصلے ہوتے ہیں۔

انتخابی ماہرین کی جانب سے حلقوں کی عددی برابری پر بے پناہ زور دیا گیا ہے جبکہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بھی اس کی بھرپور انداز میں حمایت کی گئی ہے، مگر انہوں نے اس سے سیاسی نمائندگی پر پڑنے والے اثرات اور ہمارے کچھ خاص زمینی حقائق کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ حلقوں کی عددی برابری ہمیشہ مساوی حقِ رائے دہی کا باعث نہیں بنتی۔ اگر اسے حقیقی معنوں میں لیا جائے تو یہ لوگوں کو دیوار سے لگانے اور محروم رکھنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

برطانیہ کے حلقہءِ انتخاب ایکٹ 2011ء میں بھی حلقہ بندی میں اراضی ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر حلقے کی اراضی 12 ہزار مربع کلومیٹر ہے اور اگر وہاں کی آبادی متعین کردہ کم سے کم حد سے بھی کم ہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ پاکستان میں بھی قانونی طور پر فاٹا میں حلقوں کے لیے آبادی کی تعداد قومی اوسط کے نصف جتنی متعین کی گئی ہے۔ اس علاقے کو یہ خاص رعائیت فراہم کرنے کا مقصد ’نمائندگی کی کمی‘ کو دور کرنا ہے کیوں کہ یہ صوبائی اسمبلی کا حصہ نہیں ہے۔

سب سے ضروری یہ کہ انتخابی ایکٹ 2017ء میں واضح کیا گیا ہے کہ ’رابطہ کاری اور عوامی آسانیوں‘ کو نظر میں رکھتے ہوئے حلقہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم انتخابی قوانین میں اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ ایکٹ میں الیکشن کمیشن سے درخواست کی گئی ہے کہ ’۔۔۔۔ بہتر ہے کہ پولنگ اسٹیشن اور وہاں کے ووٹرز کے درمیان فاصلہ کم کرکے ایک کلومیٹر کردیا جائے۔‘

ایک شخص ایک ہزار کلومیٹرز تک پھیلے حلقے این اے 272 میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے کتنا فاصلہ طے کرے گا؟

قانون، اصولوں اور ان پر عمل درآمد میں سقم موجود ہے خاص طور پر جب بات ہو بلوچستان میں حلقہ بندی کی، جو صاف طور پر نمائندگی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔

پڑھیے: نئی حلقہ بندی: ’پارلیمانی کمیٹی دخل اندازی سے باز رہے‘

ستم در ستم یہ ہے کہ بلوچستان میں زیادہ تر غیر مساوی حلقے بھی وہی ہیں جہاں بلوچ آبادی رہتی ہے۔ منظر نامہ کچھ ہوں ہے۔

گزشتہ مردم شماری کے بعد کوئٹہ کی آبادی 3 گنا ہوگئی ہے۔ زیادہ تر صوبائی دارالحکومتوں کی طرح کوئٹہ میں بھی مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں، گزشتہ مردم شماری کے مطابق یہاں آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی بلوچ آبادی پر مشتمل تھا۔ اس شہر کو ایک پوری نشست حاصل تھی جبکہ ایک دوسرے حلقے کا چوتھائی حصہ بھی اس شہر کے چند علاقوں پر مشتمل تھا۔

اب آبادی کے حصے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئٹہ کو 3 نشستیں دی گئی ہیں۔ ہر نشست میں آبادی متعین کردہ صوبائی اوسط کے تقریباً برابر ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس بار قومی حصے میں سے اس صوبے کو جو 2 اضافی نشستیں ملی تھیں وہ اسی ضلع کو نصیب ہوگئیں۔

گزشتہ حلقہ بندی میں بلوچستان کے پختون اکثریتی شمالی اضلاع کو 4 قومی نشستیں حاصل تھیں اور اب بھی ان کی تعداد اتنی ہی ہے۔ ان حلقوں کی بھی اوسط آبادی صوبائی اوسط کے بالکل برابر ہے۔

تاہم، 6 نشستوں کی اوسط آبادی، جس میں زیادہ تر تعداد بلوچ آبادی پائی جاتی ہے، متعین کردہ صوبائی کوٹے سے 16 فیصد زائد ہے۔ یہ حلقے بھی اراضی کے لحاظ سے کافی بڑے ہیں۔

حلقوں کی عددی برابری ہمیشہ مساوی حقِ رائے دہی کا باعث نہیں بنتی۔ اگر اسے حقیقی معنوں میں لیا جائے تو یہ لوگوں کو دیوار سے لگانے اور محروم رکھنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

مثلاً ایک حلقہ جو کوئٹہ کی چوکھٹ سے شروع ہوتا ہے اور ملک کے انتہائی مغربی کونے تک پھیلا ہوا ہے، 63 ہزار مربع کلومیٹرز جتنی وسیع اراضی پر محیط اس حلقے میں صوبائی اوسط سے 40 فیصد زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ این اے 268 مستونگ کم چاغی کم قلات کم شہید سکندرآباد کم نوشکی ان 7 اضلاع میں سے ایک ہے جہاں آبادی 10 لاکھ سے زائد ہے۔

دونوں عوامل سے پیدا ہونے والا اثر یہاں سے منتخب ہونے والے امیدواروں کی نمائندگی کے کردار پر منفی اثر مرتب کرے گا۔

پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ

اگر ان 6 نشستوں کی آبادی کو صوبائی کوٹے کے حساب سے تقسیم کیا جائے تو جواب ہوگا 7۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ قومی اسمبلی میں 7 نشستوں کا مستحق ہے نا کہ 6 کا۔ وہ ایک نشست کہاں گئی؟ وہ نشست نصیر آباد کو ملی جسے 3 نشستیں دی گئی ہیں حالانکہ اس کا حصہ 2 اعشاریہ 1 بنتا ہے۔ اس طرح ان نشستوں میں آبادی صوبائی اوسط سے بہت ہی کم بنتی ہے۔ این اے 262 کچھی کم جھل مگسی ملک کا مختصر ترین حلقہ ہے جہاں کی آبادی نصف صوبائی اوسط کے برابر ہے۔

اسی ڈویژن میں ایک اور حلقہ این اے 260 نصیرآباد ملک کا پانچواں سب سے چھوٹا حلقہ ہے، جہاں آبادی صوبائی اوسط سے 37 فیصد کم ہے۔ یہ حلقہ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرِاعظم ظفراللہ جمالی کا آبائی حلقہ بھی ہے۔ یہ صاف ہے کہ ایک بلوچ اکثریتی علاقے کو نصیرآباد ڈویژن کے ساتھ ملا دیا گیا جہاں بلوچی بولنے والوں کی آبادی نصف ہے جبکہ نصف آبادی سندھیوں اور سرائیکیوں پر مشتمل ہے۔

کہا تو جا رہا تھا کہ بلوچوں کو ملکی سیاست کے دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے مگر یہ عمل اس پالیسی سے متضاد ہے، بلکہ اس طرح تو محرومی کے بلوچ بیانیے کو تقویت مل سکتی ہے اور ان کی مرکزی سیاست سے دوری بڑھ سکتی ہے۔

بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے کا سیاسی حل یہی ہے کہ صوبے کے اندر انتخابی سیاست کی راہیں ہموار کی جائیں اور اس عمل کو قطعی طور پر ابہام کا شکار نہ بنایا جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 30 مارچ 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں