پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی حالیہ خرابی افغانستان اور دہشت گردی پر دونوں ممالک کے پالیسی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ اختلاف یا تو تعلقات میں ایک مکمل تنازعے کو جنم دے سکتے ہیں یا پھر ایک عملی سمجھوتے کو بھی۔ مگر دو طرفہ تعلقات کے لیے طویل مدت میں سب سے اہم چیز پاکستان کی ہندوستانی بالادستی کی کوششوں کی مزاحمت اور ہندوستانی جارحیت کے خلاف دفاع پر امریکی مؤقف ہوگا۔

یہ موجودہ عالمی سیاست کا تفریق پر مبنی رویہ ہے کہ جہاں بڑی طاقتیں اپنے اپنے ایٹمی اور اسٹریٹجک اسلحے اور صلاحیتوں کو توسیع دینے میں مصروف ہیں، تو وہیں ایٹمی خطرے کا منبع شمالی کوریا اور ایران کو تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں کو دھمکیاں دی گئی ہیں کہ ان کے ایٹمی اور میزائل پروگرامز کو طاقت کے استعمال کے ذریعے ختم کردیا جائے گا۔

زیادہ تر پاکستانی اسٹریٹجک مفکرین اس بات کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی طاقت پاکستان کے بہترین ترقی یافتہ ایٹمی پروگرام اور میزائل صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان اس حوالے سے بالکل بے فکر رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے ان امریکی بیانات کی بنیادوں کا جائزہ لینا چاہیے جس میں اس نے اب پوری طرح ایٹمی اور میزائل ہتھیار رکھنے والے ملک شمالی کوریا کو بذریعہ طاقت ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کی حفاظت کی ضامن1

پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی مواد کا ایک بڑا ذخیرہ اور کئی طرح کے ڈیلیوری سسٹم اور کئی ایٹمی تنصیبات ہیں جن پر آسانی سے قبضہ یا انہیں تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہندوستان اور امریکا کے ابھرتے ہوئے اسٹریٹجک اتحاد اور امریکا کی ماضی و حال کی پالیسیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہندوستان اور امریکا پاکستان کی ایٹمی اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کو محدود اور ممکنہ طور پر ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں دگنی کردیں گے۔

اوبامہ انتظامیہ کے آخری سالوں میں امریکا نے پاکستان کو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے (ٹیکٹیکل اور تھیٹر) ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور مزید ایٹمی مواد کی پیداوار روکنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اسلام آباد نے بھرپور انداز میں ان مطالبات کو مسترد کردیا کیوں کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہندوستان کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا کثیر الجہتی انداز میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر سمجھوتہ کرنا ہوتا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ ان مطالبات کو دوبارہ دہرائے گی یا نہیں۔

اس دوران امریکا پاکستان کے اسٹریٹجک پروگراموں، بالخصوص وہ جو ہندوستان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں (اینٹی بیلسٹک میزائل، طویل فاصلے کے میزائل، ایٹمی آبدوزوں، بحری بیڑوں) کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں امریکا کی جانب سے جدید ترین ٹیکنالوجی پراڈکٹس درآمد کرنے پر کئی پاکستانی کمپنیوں کو باضابطہ طور پر بلیک لسٹ کرنا امریکا کے پاکستان کے خلاف عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔

امریکا پاکستان کے خلاف ایسی یکطرفہ پابندیوں کو توسیع دینے اور باقاعدہ صورت دینے کے لیے کئی وجوہات پیش کرکے اس مسئلے کو عالمی تناظر میں پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً ایٹمی پھیلاؤ کے مسائل پر پاکستان کا عدم تعاون؛ ایٹمی پھیلاؤ کے تازہ ترین الزامات؛ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی مواد کے ذخیروں کے تحفظ پر تشویش جس میں پاکستان آرمی کا انتہاپسند ہوجانا یا اسلام پسند جنگجوؤں کا ان ہتھیاروں پر قبضہ کرلینا اور پاکستان کو دہشتگردی کا ریاستی سرپرست قرار دلوانا شامل ہے۔ مؤخر الذکر راستہ وہ ہے جس پر ہندوستان اور امریکا اس وقت سب سے زیادہ شدت سے عمل پیرا ہیں۔

اسی طرح پاکستان کے اسٹریٹجک اثاثوں کے خلاف سبوتاژ کی کارروائیاں ہمیشہ موجود خطرہ ہیں۔ ان اثاثوں پر انجینیئرڈ حملے بین الاقوامی مانیٹرنگ اور ان اثاثوں کے کنٹرول کا جواز فراہم کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: اب پاکستان کو ٹرمپ کے امریکا سے ’خلع‘ لے لینی چاہیے

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک اور بڑے (مسلح) تنازعے کی صورت میں پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ ہندوستان اور امریکا پاکستان کو ایٹمی ردِعمل دینے سے روکیں گے بھلے ہی یہ ہندوستانی جارحیت کے ردِعمل میں ہو۔ یہ کوشش کئی جہتیں اختیار کرسکتی ہے۔

  • سب سے پہلے تو یہ سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی یا/اور دیگر باڈیز کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی ردِعمل دینے سے روکنے کی سفارتی کوشش کی جاسکتی ہے۔
  • دوسرا، امریکا اور اتحادی بشمول ہندوستان، پاکستان کو ایٹمی آپشن کا استعمال کرنے سے روکنے کے لیے مشترکہ ایکشن کی دھمکی دے سکتے ہیں۔
  • تیسرا، پاکستان کے اسلحے اور ڈیلیوری سسٹم کو سائبر حملوں کے ذریعے ناکارہ بنایا جاسکتا ہے۔
  • چوتھا، انتہائی صورت میں پاکستان کی ایٹمی اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کے خلاف براہِ راست حملے کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان کو اس طرح کے تمام ممکنہ حالات سے نمٹنے کے لیے اپنے ردِعمل تیار رکھنے چاہیئں، جو کہ ہندوستان کے ساتھ مستقبل میں کسی بحران یا تنازعے کی صورت میں سر اٹھا سکتے ہیں۔

پاکستان کو جو ساز و سامان ان حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رکھنا اور حاصل کرنا چاہیے، اس کی فہرست تیار کرنا بہت آسان ہے: جیسے

  • ایٹمی وارہیڈز اور میزائل سسٹمز میں خاصی توسیع؛
  • ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل سسٹمز کو پھیلا کر اور پوشیدہ رکھنا؛
  • کچھ میزائل سسٹمز کے لیے محفوظ اور سخت سائلوز بنانا؛
  • ایک سے دو اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز (تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو محفوظ رکھا جاسکے)؛ اور
  • طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں سے لیس ایٹمی آبدوزوں کا استعمال۔

ان ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسلحے جتنی اہم سفارتی حکمتِ عملی بھی ہے۔

پہلی حکمتِ عملی

اس حکمتِ عملی کا اولین عنصر ہونا چاہیے کہ چین یہاں دیے گئے تمام ایٹمی اور اسٹریٹجک چیلنجز پر پاکستان کی پالیسی اور مؤقف کی حمایت کرے۔ چین کی مدد کے بغیر، بالخصوص سلامتی کونسل میں پاکستان کو 'مجرم' ٹھہرا دیا جائے گا اور یہ شمالی کوریا جیسی صورتحال کو پہنچ سکتا ہے۔

دوسری حکمتِ عملی

پاکستان کو ہندوستان کے سامنے ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ محدود کرنے کے لیے کئی قابلِ بھروسہ تجاویز رکھنی چاہیئں جن پر دونوں ممالک مشترکہ طور پر عمل کریں۔ ان میں فوجیوں کی نقل و حرکت کا مکمل شفاف ہونا، فوجی مشقوں کے سائز پر حدود، ایسے علاقوں کی نشاندہی جہاں طاقت کا استعمال ممنوع ہو، اور ایسے علاقے جہاں طاقت کا صرف محدود استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایٹمی وارہیڈز اور ڈیلیوری سسٹمز کی تعداد کی حد کا باہمی رضامندی سے تعین اور اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز پر پابندی کا دو طرفہ سمجھوتا بھی کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے آزمائش کا دور، لیکن ...

یہ تجاویز دو طرفہ طور پر ہندوستان کے سامنے بین الاقوامی فورمز بشمول سلامتی کونسل کے ذریعے رکھی جاسکتی ہیں یا امریکا سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اتحادی تک یہ تجاویز پہنچا دے۔

اس طرح کا اقدام تنازعات سے بچنے اور جنوبی ایشیاء میں اسٹریٹجک استحکام کے لیے پاکستانی دیانتداری کا مظہر ہوگا، جبکہ یہ ہندوستانی اور امریکی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف عوام میں پھیلائے گئے منفی تاثرات کو بھی زائل کرے گا۔

تیسری حکمتِ عملی

پاکستان کو اسلحے میں تخفیف کے بین الاقوامی فورمز میں چھوٹی اور درمیانی ریاستوں کے ایک گروہ کو ابھارنا چاہیے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے امریکی منصوبے (US 2018 Nuclear Posture Review) کی مخالفت کریں، جو کہ دنیا میں ہتھیاروں کی ایک نئی اور غیر مستحکم دوڑ شروع کرسکتا ہے۔

چوتھی حکمتِ عملی

پاکستان کو امریکا پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے اسٹریٹجک منصوبوں کے خلاف تفریق پر مبنی پابندیوں کا خاتمہ کرے، کیوں کہ یہ تعاون پر مبنی دو طرفہ تعلقات کے لیے ضروری ہے۔

پہلے قدم کے طور پر امریکا کو پاکستان کو ہندوستان سے متوازی سول ایٹمی تعاون اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت فراہم کرنی چاہیے۔ یہیں سے معلوم ہوجائے گا کہ ہندوستان پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کے بارے میں کیا نیت رکھتا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN May 11, 2018 05:46pm
شکر ہے آپ نے ایک بارن پھر پاکستان کے ایٹم بم کی حمایت کی! پاکستان زندہ باد