اسلام آباد: لاپتہ افراد کے حوالے سے دائر کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیے کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے دولخت ہوجانے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا‘۔

سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے لاپتہ افراد کے حوالے سے عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہزار 330 افراد مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں تاہم ان افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تفصیلات فراہم کرنے میں وقت درکار ہے جبکہ 253 افراد کو رہا کیا جاچکا ہے۔

ایڈو کیٹ انعام الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مزید مہلت فراہم کیے جانے کی درخواست پر شدید مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد معاملہ: سپریم کورٹ میں تفصیلی رپورٹ طلب

ان کا کہنا تھا کہ یہ تیسری مرتبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مہلت مانگی جارہی ہے شاید حکومت جسٹس اعجاز افضل خان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہی ہے۔

جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ کورٹ کی کارروائی ان کی ریٹائرمنٹ سے مشروط نہیں، بینچ میں شامل دیگر ججز، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب موجود رہیں گے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے مزید کہا کہ عدالت ایک ہزار 330 افراد کو رہا کرنے کا نہیں کہہ رہی لیکن بتایا جائے کہ زیرِ حراست افراد پر الزامات کی نوعیت کیا ہے؟ ریاستی اداروں کو لوگوں کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن نے اپریل کے مہینے تک 3 ہزار 269 کیسز میں سے ایک ہزار 822 کیسز کے علاوہ باقی تمام کیسز رد کردیے تھے۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ

جسٹس اعجاز افضل خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین طویل عرصے سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں اوراسی امید پرعدالت اور کمیشن سے رجوع بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں رپورٹ جمع کرائی اور نہ ہی وہ عدالت کے احکامات ماننے میں سنجیدہ ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی جانب سے 13 مئی 2014 کو دیئے جانے والے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاصیف علی 2013 سے زیر حراست ہے جس کے حراستی آرڈرز پیش کرنے کے احکامات جاری کیے گئے لیکن عدالت کے حکم پر آج تک عمل نہیں ہوا۔

انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے دولخت ہوجانے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، بینچ نے ایک بار پھر تاصیف علی کے حراستی آرڈرز پیش کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کو لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد پر تشویش

ایڈوکیٹ رحیم نے بتایا کہ 16 سالہ ارشد بلال نامی نوجوان کو 16 مئی 2011 کو سوات سے گرفتار کیا گیا، تاہم خوش قسمتی سے ہائی کورٹ کی مداخلت کے سبب اس کا کیس زیرِ سماعت تھا، اور ریکارڈ کے مطابق ارشد بلال 3 سال زیرِ تفتیش رہا لیکن 10 مئی 2014 کو دوبارہ قید کرلیا گیا۔

اس ضمن میں مزید 3 سال گزرنے کے بعد 27 مئی 2017 کو بلال نے اقرارِ جرم کرلیا، اور 30 دسمبر 2017 کو فوجی عدالت نے فوجی دستے پر راکٹ لانچر سے حملے سمیت 14 جرائم کے تحت اسے سزائے موت سنادی، بغیر اس بات کو سمجھے کہ ایک 16 سالہ لڑکا کس طرح راکٹ لانچر کا استعمال کرسکتا ہے۔

اپنے موقف میں انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلال کا مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا کیوںکہ حراست میں لیے جانے کے وقت وہ کم عمر تھا۔

اس موقع پر عدالت نے کونسل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی بھی ہدایت کی۔


یہ خبر 3 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں