اسلام آباد: انسانی حقوق کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر سپریم کورٹ نے تمام سرکاری اداروں سے لاپتہ افراد کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 2 ججز پر مشتمل بینچ نے وزارت داخلہ کو حراست میں لیے گئے تمام افراد اور ان کے جرائم کی تفصیلات کے بارے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ ’بغیر کسی الزام کے ان افراد کو کیوں حراست میں لیا گیا؟، اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو ٹرائل کے بعد سزا ہونی چاہیئے‘۔

مزید پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

وزارت داخلہ سے سوال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ میں بتایا جائے کہ بغیر کسی ٹرائل کے ان افراد کو سالوں سے قید میں کیوں رکھا گیا ہے‘۔

اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی نمائندگی کرنے والی آمنہ جنجوعہ نے عدالت کو لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کے لیے بنی انکوئری کمیشن کو مارچ 2011 سے اب تک 4229 کیسز موصول ہوئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کمیشن کی جانب سے 2939 کیسز کو ختم کیا ہے جبکہ آمنہ جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

تاہم جسٹس اعجاز افضل خان نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے پاس لاپتہ افراد کے لواحقین کو دینے کے لیے کوئی جواب نہیں، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں‘.

سپریم کورٹ کے بینچ نے حراست میں لیے گئے تمام لاپتہ افراد کو اپنے لواحقین سے ایک ہفتے کے اندر ملوانے کا حکم جاری کیا۔

بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت سپریم کورٹ نے 13 نومبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں