لاہور: صوبہ پنجاب کے وزیر قانون اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے ان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خواتین سے متعلق دیئے گئے نا مناسب بیان پر پنجاب اسمبلی میں معذرت کرلی۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری ماؤں، بہنوں کے بارے میں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا کیا کچھ نہیں کہتا، اس کا نوٹس ہونا چاہیے، جب یہ کہتے ہیں تو ہم بھی بات کرتے ہوئے وہی بولیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ میں نے ایوان کے اندر معذرت کر لی ہے اب سوری نہیں کہوں گا، سوری کا ایک لفظ نہیں کہوں گا، اپنا بیان واپس لے لیا ہے جس کے بعد اپوزیشن کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سوری میں پانچ حرف آتے ہیں اور میں سوری کا پہلا حرف ’ایس‘ بھی نہیں کہوں گا۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں رانا ثنااللہ کے خلاف قرار داد مذمت متفقہ منظور

صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی مذکورہ بات پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آوٹ کیا۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی میاں محمود الرشید نے ایوان میں کہا کہ رانا ثناء اللہ ایوان میں سوری کریں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اپنا بیان ود ڈرا تو کر رہے ہیں لیکن اس پر سوری بھی ایوان میں بولیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہماری ماؤں، بہنوں کے خلاف نازیبا الفاظ بولتے ہیں جبکہ اس پر سوری بھی نہیں کر سکتے۔

علاوہ ازیں طاہر خلیل سندھو نے پنجاب اسمبلی میں کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے ارکان سوری کی بات کرتے ہیں تو پی ٹی آئی والے بھی معافی مانگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عائشہ گلالئی جس بلیک بیری کی بات کرتی ہیں وہ بھی سامنے لایا جائے۔

ادھر ایم پی اے مسلم لیگ (ن) رانا ارشد نے کہا کہ تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین کو ہراساں کیا گیا، اس کا جواب کون دے گا، کیا یہ اس پہ معذرت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین سے متعلق تضحیک آمیز بیان: رانا ثناء اللہ نے معافی مانگ لی

گزشتہ روز رانا ثناء اللہ نے خواتین سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے پر معافی مانگ لی تھی۔

اپنے ایک بیان میں رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ خواتین کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ واپس لیتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سب کی مائیں، بہنیں سانجھی ہوتی ہیں اور میرے بیان کا مقصد کسی کی تضحیک کرنا نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 29 اپریل کو لاہور میں مینار پاکستان پر پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کے بعد پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے جلسے میں شریک خواتین سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ’جن خواتین نے پی ٹی آئی کے جلسے میں شرکت کی وہ کسی معزز گھرانے سے نہیں تھیں کیونکہ ان کے رقص کے انداز سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اصل میں کہاں سے ہیں؟‘

اس بیان کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’رانا ثناء اللہ اور دوسرے کردار، شریفوں کی ذہنیت اور ان کی نظر میں خواتین کے مقام و حرمت کی عکاسی کرتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کی پی ٹی آئی خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ کی مذمت

عمران خان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سیکریٹری اطلاعات مولا بخشن چانڈیو نے رانا ثناء اللہ کے بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’بہت ہوگیا، اب خواتین کی تذلیل مزید برداشت نہیں کی جائے گی‘۔

دو روز قبل پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے رانا ثناء اللہ کے بیان پر قومی اسمبلی میں قرار داد مذمت جمع کرائی تھی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔

اس روز رانا ثناء اللہ کے خواتین سے متعلق نازیبا الفاظ کے خلاف پنجاب اسمبلی میں ایک اور مذمتی قرارداد جمع کرائی گئی تھی۔

ادھر وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان پر ہونے والی تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں عمومی بات کررہا تھا جس کو ذاتی طور پر نشانہ نہیں بنایا اور جلسے کا 2011 کے جلسے سے موازنہ کررہا تھا۔

وزیرقانون پنجاب نے کہا کہ عمران خان پہلے عائشہ گلالئی کے بیان پر آکر معافی مانگ لیں تو میں بھی اپنے بیان پر معذرت کر لوں گا۔

پنجاب ساونڈ سسٹم ریگولیشن ترمیمی بل منظور

دوسری جانب صوبائی اسمبلی نے پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ترمیمی بل منظور کرلیا۔

بل کے مطابق مساجد میں اذان، درود و سلام اور نماز جمعہ کے عربی خطبے کے لیے لاؤڑ اسپیکر کی تعداد ایک سے بڑھا کر چار کردی گئی۔

اس کے علاوہ قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم ایک سے پانچویں جماعت تک کے تمام اسکولوں میں لازمی قرار دینے اور چٹھی جماعت سے دسویں جماعت تک قرآن کے ترجمہ کو نصاب میں لازمی قرار دینے کا بل بھی متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

13 اپریل 2018 کو صوبائی حکومت نے پنجاب ساؤنڈ سسٹم (ریگولیش) (ترمیمی) آرڈیننس نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت صوبے بھر کی مساجد میں 4 بیرونی لاؤڈاسپیکر کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مساجد میں 4 لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کیلئے آرڈیننس نافذ کرنے کا اعلان

خیال رہے کہ پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2015 کے آرڈیننس میں ترمیم کی گئی ہے جو پنجاب حکومت کی جانب سے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے 5 قوانین میں سے ایک تھا۔

اس سے قبل اس قانون کے تحت مساجد میں ایک لاؤڈ اسپیکر کی اجازت تھی اور اس کا استعمال بھی محدود تھا جبکہ خلاف ورزی پر سزا بھی دی جاتی تھی۔

تاہم نئے ترمیمی آرڈیننس میں حکام کی جانب سے کہا گیا کہ گورنر کی جانب سے اس آرڈیننس پر دستخط کردیے گئے اور جمعے تک اس کو شائع کیے جانے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں