بلوچستان میں کوئٹہ کے علاقے مرور میں کوئلے کی دو کانیں بیٹھنے سے 23 کان کن جاں بحق ہوگئے۔

کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان مینرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ملکیت سر رینج کوئلے کی کان مٹی کے تودے کی زد میں آئی۔

لیویز کے مطابق حادثے کے وقت کان میں 7 مزدور موجود تھے جن کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

واقعے کے بعد ڈی جی پی ڈی ایم اے محمد طارق نے بتایا کہ کان میں حادثے کے نتیجے میں 16 افراد جاں بحق ہوئے، تاہم ریسکیو کا عمل مکمل ہونے کے بعد جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 23 تک پہنچ گئی۔

اطلاعات کے مطابق کوئلے کی کان گیس دھماکے کے نتیجے میں بیٹھ گئی جس کے بعد فوری طور امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور ملبے تلے دبے کانکنوں کی تلاش کا عمل شروع کردیا گیا۔

لیویز ذرائع کے مطابق امدادی کارروائی کے دوران جاں بحق 6 کان کنوں کی لاشوں کو نکال لیا گیا تھا جبکہ 6 کو زخمی حالت میں نکال کر سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کردیا گیا تھا۔

کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر فرخ عتیق اور صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار جائے وقوع پر پہنچے اور امدادی کام کی نگرانی کی۔

کان کنوں کو بچانے کے لیے جاری امدادی کام میں فرنٹیئر کور (ایف سی)، لیویز اور کوئیک رسپانس فورس کے اہلکار بھی جائے وقوع پر موجود تھے۔

ڈان کو انتظامی عہدیداروں نے بتایا کہ متاثرہ کان کنوں میں اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے۔

جاں بحق 23 کان کنوں میں سے دو بلوچستان کے مقامی تھے جبکہ دیگر 21 کان کنوں کا تعلق شانگلہ سے تھا۔

شانگلہ میں دکانیں مکمل بند رہیں اور الپوری تحصیل میں ناگہانی واقعے پر سوگ چھایا رہا اور تدفین کی تمام تیاریاں بھی مکمل کرلی گئیں۔

واقعے میں مجموعی طور پر 11 کان کن زخمی بھی ہوئے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات سے سالانہ سیکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں سالانہ 100 سے 200 کے درمیان کان کنوں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

درہ آدم خیل اور جہلم میں گزشتہ ماہ پیش آنے والےاسی طرح کے واقعات میں کم از کم 11 کان کن جاں بحق ہوئے تھے۔

کوئلے کی کان کو گیس، کوئلے کی دھول اور گرد کے باعث خطرناک سمجھا جاتا ہے جو اچانک بیٹھ جاتی ہے یا معمولی سی غلطی کے باعث خوف ناک حادثات پیش آتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں