اسلام آباد: انسدادِ پولیو ٹیم نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین کے خلاف منفی مہم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے پولیو کے سربراہ ڈاکٹر رانا صفدر نے ڈان کو بتایا کہ ‘ہر پولیو مہم سے قبل ویکسین کے خلاف مربوط منفی مہم شروع ہوجاتی ہے، دوسری جانب مختلف امراض جیسے نظامِ تنفس میں انفیکشن اور اسہال کے باعث سب سے زیادہ بچے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، خسرہ کی وبا ابھی باقی ہے لیکن ’شیطانی دماغ‘ والے مذکورہ اموات کو ویکسین سے جوڑ رہے ہیں جس کے باعث والدین خوفزدہ ہیں’۔

مزید پڑھیں: ’ملک میں پولیو ویکسین نہ پلانے کے واقعات بڑھنے لگے‘

انہوں نے بتایا کہ ‘سوشل میڈیا پر متعدد ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں والدین کو پولیو ویکسین پلانے سے روکنے کی ہدایت کی گئی‘۔

ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ ‘واٹس اپ کی وجہ سے حالات مزید بدتر ہوگئے ہیں کیونکہ اس میں پہلی مرتبہ ویڈیو پوسٹ کرنے والے کا پتہ نہیں چلتا’۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ویکسینیٹرز کو ہدایت کی گئی ہیں کہ وہ 7 مئی کو شروع ہونے والی پولیو مہم کے پہلے دن زیادہ زیادہ بچوں کو ویکیسن پلائیں تاکہ اگلے دنوں میں ویکیسن کے انکاری کے کیسز کم ہو سکیں’۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا: جھوٹ پھیلانے کا آسان ذریعہ؟

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے سے درخواست کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین کے خلاف منفی پروپیگنڈا روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

واضح رہے کہ ٹرانسمیشن سیزن میں آخری پولیو مہم 18-2017 کا آغاز 7 مئی سے ہوگا جس میں 109 اضلاع، ایجنسیاں اور ٹاؤن شامل ہیں۔

پولیو مہم کا آغاز پاکستان اور افغانستان میں ایک ساتھ شروع ہوگا تاکہ کوئی بچہ پولیو ویکیسن سے محروم نہ رہے۔

مزید پڑھیں: ’پولیو ویکسین کے استعمال کے بعد 3 بچوں کی ہلاکت‘

ڈاکٹر صفدر نے ڈان کو بتایا کہ جب پاکستان میں ویکسین کا سلسلہ شروع کیا گیا تو بعض بچے افغانستان میں تھے اور جب افغانستان میں انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوا تو تب متعدد بچے پاکستان میں تھے، جس کے باعث ہزاروں بچے پولیو ویکسین سے محروم رہ گئے۔


یہ خبر 06 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں